1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا برلن میں ہم جنس پرست مہاجرین کو خوش آمدید کہا جاتا ہے؟

شمشیر حیدر گیرو شلیز
7 اگست 2017

جرمن دارالحکومت برلن دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ہم جنس پرستوں اور مختلف جنسی رجحان کے حامل مرد و خواتین کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ کئی مہاجرین بھی اسی وجہ سے برلن کا رخ کرتے ہیں۔ پڑھیے گیرو شلیز کا کالم۔

https://p.dw.com/p/2hoev
تصویر: LSVD Berlin Brandenburg

برلن میں میرا ایک دوست انوکھی اور ہم جنس پرستوں اور مختلف جنسی رجحانات و میلانات رکھنے والوں کے لیے منفرد تقریبات کا انعقاد کرتا رہتا ہے۔ ہر ماہ منعقد ہونے والی ایسی ہی ایک تقریب میں پچاس سے زائد امرد پرست جمع ہوتے ہیں، جہاں سبھی مل کر فلم دیکھتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب میں میری ملاقات عارف (فرضی نام) سے ہوئی۔

جرمنی میں مہاجرین کے لیے بڑے شہر پرکشش

مہاجر عورتیں، بہتر مستقبل کا خواب سے جنسی غلامی تک

نوجوان عارف کا تعلق شام سے ہے اور وہ دو ہفتے قبل ہی جرمنی آیا تھا۔ عارف نے بتایا کہ اس کا تعلق شامی شہر حلب سے ہے اور وہ دبئی کے راستے آخر کار برلن پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے بقول وہ برلن اس لیے آنا چاہتا تھا کہ آخر کار وہ ایک ہم جنس پرست کے طور پر آزادانہ زندگی گزار سکے۔

میں نے اسے برلن میں مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے ہم جنس پرست مرد و زن کی معاونت اور مدد کے لیے بنائی گئی کچھ تنظیموں کے بارے میں بتایا۔ وہ ایسی کسی تنظیم کے بارے میں بالکل نہیں جانتا تھا۔

Parade zum Christopher Street Day in Berlin
برلن میں ’کرسٹوفر اسٹریٹ ڈے‘ پریڈ کا ایک منظرتصویر: Reuters/F. Bensch

عارف سے گفت گو کے دوران مجھے ارینا فیدیتووا کی یاد آئی۔ روس سے تعلق رکھنے والی ارینا کئی مرتبہ ماسکو میں ہم جنس پرستوں کی پریڈ منعقد کرنے کی کوشش کرتی رہی تھی جس کے باعث اسے لوگوں اور پولیس کے ہاتھوں تذلیل کا سامنا بھی کرنا پڑتا رہا تھا۔

پاکستانی ہم جنس پرست مہاجرین کے لیے جرمنی میں ’نفرت‘ کا رحجان

برلن میں ہم جنس پرستوں کی پریڈ کے دوران میری ارینا سے ملاقات ہوئی تھی۔ پریڈ کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہنے لگی کہ سب کچھ اچھا ہے لیکن اس اجتماع میں کوئی ’سیاسی پیغام‘ نہیں ہے۔ میں نے اس کی بات پر غور کیا۔ کیا ہم جنس پرستوں کی پریڈ کا مقصد صرف جشن منانا اور رقص کرنا ہے؟

08.2016 Kolumne Gero Schließ
Berlin 24/7 کے نام سے گیرو شلیز کا کالم ہر اتوار کے روز شائع ہوتا ہے

برلن میں ہم جنس پرست تارکین وطن کا معاملہ دیکھیں تو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔ میں ایسے کچھ دوستوں کو بھی جانتی ہوں جنہوں نے برلن میں ہم جنس پرست مہاجرین کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے۔ لیکن مجموعی صورت حال کچھ خوش آئند بھی نہیں ہے۔

میری ملاقات ترکمانستان سے تعلق رکھنے والے ایک امرد پرست مہاجر سے ہوئی تھی۔ اس کی ناک ٹوٹی ہوئی تھی۔ برلن ہی میں واقع پناہ گزینوں کے ایک مرکز میں اسے ہم جنس پرستوں سے نفرت رکھنے والے مہاجرین نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں، پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2016 میں ہم جنس مہاجرین کے خلاف تشدد کے تین سو سے زائد واقعات رونما ہوئے تھے۔

پھر بات یہیں تک محدود نہیں ہے۔ ہم جنس پرست کمیونٹی میں بھی مہاجر ہم جنس پرستوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طبقے میں کافی مقبول برلن کے ایک کلب میں ویک اینڈ پر کافی رش ہوتا ہے۔ میں بھی ایک مرتبہ طویل لائن میں کھڑا تھا تو میں نے دیکھا کہ کلب کے دروازے پر تعینات سکیورٹی اہلکار نے کچھ لوگوں کو خاص طور پر اندر جانے سے روک دیا۔ جب میں ان کے قریب پہنچا تو معلوم پڑا کہ وہ چاروں ہی عرب ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔

اسی طرح دیگر مہاجرین کی طرح ہم جنس پرست مہاجرین کو بھی برلن سمیت جرمنی بھر میں ملازمت کے حصول میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

فرانس میں لاوارث مہاجر بچے، ’جنسی زیادتی، استحصال کے خطرات‘

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے

جرمنی ميں جسم فروشی پر مجبور مرد پناہ گزين