1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا روس مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے؟

عدنان اسحاق20 اکتوبر 2015

امریکی فوج کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزیف ڈنفورڈ نے کہا ہے کہ ایسا امکان کم ہی ہے کہ روس عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی سربراہی میں جاری فضائی کارروائیوں میں شریک ہو۔

https://p.dw.com/p/1Gr8l
تصویر: picture-alliance/dpa/Russian Defense Ministry Press and Information Office

امریکی فوج کے جنرل جوزیف ڈنفورڈ نے عراق کے اپنے پہلے دورے پر کہا کہ امریکی حکام نے اس سلسلے میں تصدیق کی ہے کہ عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے ماسکو حکومت سے آئی ایس کے خلاف کارروائی کرنے کی کوئی درخواست نہیں کی۔ روس کی جانب سے شام میں فضائی کارروائیاں جاری ہیں جبکہ روس عراق میں خفیہ معلومات کے تبادلے کے ایک ایسے نئے آپریشن میں بھی شامل ہے، جس کا حصہ ایران اور شام بھی ہے۔ عراق واشنگٹن میں اس تناظر میں اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے کہ سرد جنگ کے زمانے کے امریکی حریف کا مشرق وسطی میں اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔

عراقی وزیراعظم العبادی نے یکم اکتوبر کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ روس کی جانب سے اگرعراق میں بھی اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ اس کا خیر مقدم کریں گے۔ تاہم اس بارے میں ڈینفورڈ نے کہا ’’ العبادی نے اس طرح کی کوئی درخواست نہیں کی‘‘۔ اسی روز جنرل ڈنفورڈ نے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا عہدہ بھی سنبھالا تھا۔

Joseph F. Dunford/ US-Generalstabschef
جنرل ڈنفورڈ نےابھی حال ہی میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا عہدہ بھی سنبھالا ہےتصویر: picture alliance/ landov

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عراقی حکام اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جاری امریکی کارروائیوں کے نتائج اور سست رفتاری سے بہت مایوس ہیں۔ تاہم دوسری جانب شام میں روسی فضائی مداخلت نے امریکی آپریشن کے نقشے کو ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔

عراق میں ایران نواز شیعہ جنگجو گروپوں کا الزام ہے کہ امریکی آپریشن میں فیصلہ سازی اور مستعدی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ واشنگٹن نے ان الزامات کا مسترد کر دیا ہے۔ ڈنفورڈ نے شمالی عراقی شہر اربیل پہنچنے پر کہا کہ وہ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد وہ اس ملک میں آئی ایس کے خلاف جاری آپریشن کی تازہ ترین صورتحال جاننا چاہتے ہیں۔ ’’یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد میں خود اپنی آنکھوں سے حالات کا جائزہ لینا چاہتا تھا‘‘۔

شام اور عراق میں امریکا نے آئی ایس کے خلاف برسرپیکار مقامی گروہوں کی پشت پناہی کرنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔ آئی ایس سے علاقے خالی کرانے کے لیے ان گروہوں کو امریکی فضائی حملوں کا تعاون بھی حاصل ہوتا ہے۔

شمالی عراق کا کرد علاقہ قدرے پر امن تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم حالیہ دنوں کے دوران اس خطےمیں سیاسی اور معاشی مسائل نے لوگوں کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔