1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا لاطینی امریکہ تبدیل ہوچکا ہے؟

18 ستمبر 2008

بعض حلقوں کے مطابق دنیا میں ایک بار پھر سرد جنگ کے زمانے والی صف بندیاں ہو رہی ہیں اور لاطینی امریکہ قدرتی طور پر روس کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔

https://p.dw.com/p/FKK1
ہوگو شاویز فدیل کاسترو اور راؤل کاسترو کے ساتھتصویر: AP

بولیویا کے حالیہ تنازعے نے دو باتیں واضح کردی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بائیں بازو کی قیادت لاطینی امریکہ کے ممالک میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے اور دوسرے یہ کہ امریکہ کی یہ کوشش کہ ان ممالک کو لبرل جمہوریت کی جانب لایا جاسکے سود مند ثابت نہیں ہو رہی ہیں بلکہ اس کا الٹا ہی اثر پڑ رہا ہے۔

بعض مبصرین کی رائے میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی حالیہ برسوں میں، اور خاص طور پر سوویت یونین کے انہدام کے بعد، لاطینی امریکہ میں دلچسپی میں خاصی حد تک کمی آئی ہے۔ امریکہ نے دنیا کے دوسرے حصّوں میں جو محاز کھول رکھے ہیں وہ امریکہ کو مصروف رکھنے کے لیے فی الوقت کافی ہیں۔ مگر اب صورتِ حال میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ روس اور مغرب نواز جورجیا کے درمیان حالیہ جنگ ہے جس میں روس کا ایک بہت بڑی طاقت کے طور پر ظہورِ ثانی ہے۔

Evo Morales auf dem EU Lateinamerika Gipfel in Wien
مبصرین کی رائے میں ایوو مورالیس حالیہ بحران کے بعد مضبوط تر ہو کے ابھرے ہیںتصویر: AP


وینیزویلا کے مارکسی صدر ہوگو شاویز نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امسال نومبر میں روسی بحریہ کو وینیزویلا کے ساتھ مشقیں کرنے کی دعوت دے ڈالی جو کہ روس نے قبول بھی کر لی ہے۔ وینیزویلا تیل کی دولت سے مالامال ملک ہے اور حالیہ کچھ عرصے میں اس نے معاشی طور پر لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک سے زیادہ ترقّی کی ہے۔


یقیناً اپنے گھر سے کچھ ہی دور روس کا لاطینی امریکہ کے سوشلسٹ ممالک کے ساتھ بڑھتا ہوا معاشی اور عسکری تعلق امریکہ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

Hugo Chavez mit Wladimir Putin in Moskau
روس کے ساتھ لاطینی امریکہ کے ممالک کے بڑھتے ہوئے تعلقات امریکہ کے لیے باعثِ تشویشتصویر: AP

تیزی سے ترقّی کرتے ہوئے لاطینی امریکہ کے ممالک میں سوشلسٹ حکومتوں کو مزید مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ ہوگو شاویز اور بولیویا کے صدر ایوو مورالیس نئی دولت کو نچلے طبقے تک منتقل کرنے اور سماجی بہبود کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اسی واسطے جب بولیویا کے پانچ امیر صوبوں کے گورنروں نے ایوو مورالیس کی معاشی اصلاحات کی مخالفت کی، جس میں ملک کی قدرتی گیس اور زمین کو تمام علاقوں میں مساوی طور پر تقسیم کرنا تھا، تو مبینہ طور پر امریکہ نے ان صوبوں کی وسیع تر خودمختاری کی حمایت کی۔ جواباً مورالیس نے بولیویا سے امریکی سفیر کو بے دخل کردیا اور الزام عائد کیا کہ امریکہ دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت کر رہا ہے۔ ہوگو شاویز نے مورالیس کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے وینیزویلا سے بھی امریکی سفیر کو نکال دیا اور امریکی سفیر سے یہاں تک کہہ دیا کہ ’سو بار جہنم میں جاؤ‘۔


اس صورتِ حال کے پیشِ نظر لاطینی امریکہ کے وہ ممالک بھی جو امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتے ہیں ، بدلتے ہوئے حالات سے خود کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتے ہیں۔ بعض حلقوں کے مطابق دنیا میں ایک بار پھر سرد جنگ کے زمانے والی صف بندیاں ہو رہی ہیں اور لاطینی امریکہ قدرتی طور پر روس کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔ بقول ہوگو شاویز ’لاطینی امریکہ تبدیل ہوچکا ہے۔ ہم تاریخ رقم کر رہے ہیں‘۔