1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان میں عدلیہ احتساب سے ماورا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد1 اگست 2016

ان دنوں پاکستان کے سماجی و سیاسی حلقوں میں یہ بات گرم ہے کہ سارے اداروں کا احتساب کرنے والی اعلیٰ عدلیہ اور اس کے معزز ججوں کا احتساب کیوں نہیں ہوتا۔

https://p.dw.com/p/1JZrT
تصویر: dapd

سپریم کورٹ کے معروف وکیل فیصل صدیقی کی طرف سے پاکستان کے ایک انگریزی روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں یہ سوال اٹھایا کہ 1973ء سے لے کر آج تک کسی جج کو نا اہلیت یا کرپشن کے الزام میں کیوں نہیں ہٹایا گیا۔ انہوں نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ ان دنوں اعلیٰ عدلیہ کے کچھ ججوں پر اقربا پروری کا الزام لگ رہا ہے۔ اپنے کالم میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دوسروں کا احتساب کرنے والی عدلیہ کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔
پاکستان کے کئی سیاسی تجزیہ نگار بھی اس بات پرحیران ہیں کہ پاناما لیکس پر سیاست دانوں کے احتساب کی تو بات ہو رہی ہے لیکن کوئی اس جج کی بات نہیں کر رہا جس کا پاناما لیکس میں تذکرہ آیا ہے۔ ماضی میں دوہری شہریت رکھنے والے اراکین اسمبلی اور سرکاری ملازمین کو احتساب کا سامنا کرنا پڑا لیکن بعض ناقدین کے مطابق اعلٰی عدلیہ کے ایک جج وہاں بھی بچ گئے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق اس ساری صورتِ حال نے کچھ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع فراہم کر دیا کہ عدلیہ بھی پاکستان میں مقدس گائے بن گئی ہے، جس پر تنقید کرنا اور احتساب کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس مسئلے پر ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس آف پاکستان سعید الزماں صدیقی نے کہا، ’’یہ بات صیح ہے کہ 1973ء سے لے کرآج تک کسی جج کو کرپشن کے الزام میں ہٹایا نہیں گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ آئین میں ججز کے احتساب کے لیے جو شق نمبردو سو نو ہے، اس کی رُو سے سپریم جوڈیشل کونسل ہی کسی جج کے خلاف ریفرنس سن سکتی ہے۔ تو یہ ایک طرح سے اندرونی احتساب کا نظام ہے، جو پہلے 1956ء میں متعارف کرایا گیا اور بعد میں اس کو 1973ء کے آئین میں بھی رکھا گیا۔ کیونکہ یہ اندورنی احتساب کا نظام ہے اس لیے اس کی شفافیت پر سوال بھی اٹھتے ہیں۔ جب ارسلان افتخار کا کیس سامنے آیا تو افتخار چوہدری خود اس بینچ میں بیٹھنے جارہے تھے۔ بعد میں شعیب سڈل کے ماتحت ایک کمیشن بنا دیا گیا، جس کی رپورٹ کو آج تک عام نہیں کیا گیا۔ تو اس طرح کی باتوں سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’امریکا میں ججز کے تقرر سے پہلے امریکی سینیٹ جانچ پڑتال کرتی ہے۔ بھارت میں بھی پارلیمنٹ کو ججز کے تقرر اور احتساب کے حوالے سے اختیارات ہیں۔ تو ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن پھر عوامی نمائندوں کو بھی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ احتساب اس انداز میں کریں کہ عوام کو اس میں شفافیت نظر آئے۔‘‘


انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے ججز کے تقرر کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اختیار ات کو بہت محدود کردیا ہے: ’’اب پارلیمنٹ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو رد نہیں کر سکتی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کے پاس بہرحال عوام کا مینڈیٹ ہے۔ میرے خیال میں پارلیمنٹ کو اس حوالے سے زیادہ با اختیار ہونا چاہیے جیساکہ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں ہوتا ہے۔‘‘

’’سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے ججز کے تقرر کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اختیار ات کو بہت محدود کردیا ہے‘‘
’’سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے ججز کے تقرر کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اختیار ات کو بہت محدود کردیا ہے‘‘تصویر: Abdul Sabooh

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عابد حسن منٹو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’آئین میں احتساب کانظام موجود ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ججز کے خلاف شکایات آتی ہیں تو انہیں سنا ہی نہیں جاتا۔ یہاں تک کہ یہ بتانے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ ججز کے خلاف کتنی شکایات آئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلے پر بار کونسل اور سول سوسائٹی خاموش کیوں ہیں؟ جب تک وہ اس مسئلے پر عوام میں کام نہیں کریں گی، احتساب کا کوئی نظام کار گر ثابت نہیں ہوگا۔‘‘

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اختر حسین ایڈوکیٹ نے اس مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بھارت میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جو شخص جج بن رہا ہے اس کا کوئی بیٹا یا قریبی رشتہ دار اس پیشے میں تو نہیں ہے۔ یہاں یہ صورتِ حال ہے کہ ججز نے اپنی لاء فرم کھولی ہوئی ہیں۔ ان کے بیٹے اور رشتے دار وکیل ہیں اور عدالتوں میں کیس لڑ رہے ہیں۔ جوڈیشل کونسل میں ججوں کی تعداد زیادہ ہے اور کونسل کو تقرری کے اختیارات حاصل ہیں۔کیوں کہ وہ اکثریت میں ہیں اس لیے تقرری کے حوالے سے جب کسی کی نا اہلی سامنے آئے گی تو سوال تقرر کرنے والوں پر بھی ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ کونسل میں اراکین کی تعداد میں ایک توازن ہونا چاہیے، جب ہی اقربا پروری کو روکا جا سکتا ہے۔‘‘