1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان کی تمام مساجد میں ایک جیسا خطبہ ہونا چاہیے؟

عبدالستار، اسلام آباد
19 ستمبر 2017

کئی دیگر ممالک کی طرح حکومت پاکستان بھی ملک کی تمام مساجد میں جمعے کے یکساں خطبے کے لیے ایک نصاب تیار کر رہی ہے۔ کیا پاکستان میں یہ منصوبہ کامیاب ہو پائے گا اور کیا مذہبی شخصیات کی طاقت کو اس طرح کنٹرول کرنا ممکن ہے؟

https://p.dw.com/p/2kJQN
Vorbereitung Fastenbrechen Ramadan Peschawar
تصویر: DW/F. Khan

انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت جمعے کے خطبے کے لئے ایک نصاب تیار کر رہی ہے۔ اس نصاب کا مقصد عملی زندگی کو قران و حدیث کے مطابق گزارنے کے حوالے سے عوامی شعور بیدار کرنا بتایا گیا ہے۔
کئی مبصرین کے خیال میں جمعے کے خطبات کی مانیٹرنگ ضروری ہے کیونکہ کئی مذہبی شخصیات ان خطبات کے ذریعے فرقہ واریت پھیلاتی ہیں اور عسکریت پسندی کو ہوا دیتی ہیں۔ لیکن پاکستان کی مذہبی تنظیمیں ایسے کسی بھی اقدام کی بھر پور مخالفت کریں گی۔ معروف مذہبی شخصیت مولانا طاہر اقبال چشتی نے اس حکومتی منصوبے پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے کہا، ’’ابھی یہ محسو س کر لیا گیا ہے کہ ملک میں علماء کا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھ رہا ہے تو اس کو کم کرنے کے لیے حکومت اس طرح کے اقدامات کرنا چاہتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس طرح کا کوئی نصاب بنانا ممکن نہیں ہے،’’پاکستان میں ہر علاقے کے حالات مختلف ہیں اور علماء ان حالات کی روشنی میں جمعے کے خطبات کے ذریعے عوام کی رہنمائی کرتے ہیں۔ پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ ایسے کسی نصاب کو بنانا ہی مشکل ہے اور اگر بن گیا تو اس پر عمل درآمد بہت مشکل ہوگا۔‘‘

Pakistan Gewalt zwischen Sunniten und Schiiten in Rawalpindi
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

فتح پور: فرقہ پرستی کی فضا میں مختلف کیسے
انہوں کہا کہ اگر ایسا کوئی نصاب بنتا ہے تو ملک کے علماء اس کی بھر پور مخالفت کریں گے اور مزاحمت سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
وفاق المدارس کے جنرل سیکریڑی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن حنیف جالندھری نے اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو کو اپنی رائے دیتے ہوئے کہا، ’’ہر ملک کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ اگر لوگ سعودی عرب کی بات کرتے ہیں تو وہاں بادشاہت ہے جب کہ پاکستان میں جمہوریت ہے اور آئین آپ کو اظہار رائے اور تمام بنیادی آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے۔ تو آپ کیسے اس طرح کوئی نصاب بنا سکتے ہیں۔ اگر آج آپ خطبات کے حوالے سے نصاب بنا رہے ہیں تو کل ذرائع ابلاغ کے لئے بھی نصاب بنایا جائے گا۔‘‘
انہوں نے کہا اس طرح کی کسی بھی نصاب پر اسلامی نظریاتی کونسل میں بات نہیں ہوئی،’’جب تک میں اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن تھا تب تک تو اس مسئلے پر وہاں کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی حکومت نے جمعے کے خطبے کے لئے نصاب بنانے کے حوالے سے علماء سے مشورہ کیا۔ جب اس پر مشورہ لیا جائے گا تو بات کریں گے۔‘‘
عسکریت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں اس طرح کے اعلانات عموماﹰ محرم کے مہینے سے پہلے دیے جاتے ہیں لیکن اس ماہ کے گزرنے کے فوراﹰ بعد فرقہ وارانہ جماعتیں پھر پورے ملک میں جو چاہتی ہیں کہتی ہیں۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں اس بیان کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے جس میں خواجہ آصف اور وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی بات کی تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس منصوبے کو آرمی کی حمایت حاصل نہیں ہوئی تو پھر اس کی کامیابی کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جمعے کے خطبات کے لئے نصاب بنانا ضروری ہے،’’جمعے کے خطبات عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور مولوی حضرات کی سیاست کو بڑھانے میں بھی بڑے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اب آپ دیکھیں کہ ایک بندے نے جمعے کے خطبات میں شر انگیز تقریریں کر کے اتنی شہرت پائی کہ وہ رکنِ پنجاب اسمبلی بن گیا جب کہ اسی طرح کے خطبات دینے والوں نے حلقہ این اے ایک سو بیس میں بھی اپنی بھر پور موجودگی دکھائی ہے۔ تو اس پر نصاب بننا تو چاہے لیکن مولوی حضرات اس کی بھر پور مخالفت کریں گے۔ ہم یہ سندھ میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ انہوں نے کس طرح پی پی پی حکومت کو جمعے کے خطبات اور مدارس کے حوالے سے ضابطے جیسے مسائل پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا۔ تو میرا خیال ہے ایسے کسی بھی حکومتی اقدام کی علماء بھر پور مخالفت کریں گے۔‘‘

Pakistan Gewalt zwischen Sunniten und Schiiten in Rawalpindi
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images