1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا یورپ میں مہاجرت کا بحران کبھی ختم ہو گا؟

صائمہ حیدر
6 اکتوبر 2016

یورپی یونین کو مہاجرت کے بحران کے حل میں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو بعض رکن ممالک مہاجرکوٹہ سسٹم کے شدید مخالف ہیں تو دوسری جانب ترکی کے ساتھ مہاجرین کے حوالے سے معاہدہ بھی خطرے میں پڑتا نظر آتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Qw3i
Mittelmeer Flüchtlinge Rettungsaktion
 سمندر میں تارکینِ وطن کی کشتیوں کے ڈوبنے کے کئی واقعات کے مناظر دل دھلا دینے والے تھے تصویر: Reuters/Marina Militare
Mittelmeer Flüchtlinge Rettungsaktion
 سمندر میں تارکینِ وطن کی کشتیوں کے ڈوبنے کے کئی واقعات کے مناظر دل دھلا دینے والے تھے تصویر: Reuters/Marina Militare

بحیرہء روم میں مہاجرین کے سمندر میں ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر یورپ کے کبھی ختم نہ ہونے والے بحران کی سنگین نوعیت زیرِ بحث ہے۔ اس کاا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ  صرف گزشتہ دو روز میں ہی دس ہزار چھ سو سے زائد تارکینِ وطن کو لیبیا کے ساحل سے کچھ فاصلے پر ڈوبنے سے بچایا گیا۔

 یورپ کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد مہاجرین کے بد ترین بحران کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس تین لاکھ تارکینِ وطن بحیرہء روم کے راستے یورپ پہنچے۔ یہ تعداد سن دو ہزار پندرہ میں سمندر کے ذریعے یورپ پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد سے کم ہے لیکن سن دو ہزار چودہ میں بحیرہء روم پار کرنے والے دو لاکھ انیس ہزار مہاجرین کے مقابلے میں مجموعی طور پر زیادہ ہے۔

 اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ جنوری سن دو ہزار پندرہ سے لے کر اب تک یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی نصف تعداد شامی مہاجرین پر مشتمل ہے۔ بین الاقوامی ادارہء مہاجرت اور یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار چودہ سے اب تک دس ہزار سے زائد مہاجرین بحیرہء روم پار کرتے ہوئے ہلاک ہوئے۔

 سمندر میں تارکینِ وطن کی کشتیوں کے ڈوبنے کے کئی واقعات کے مناظر اس قدر دل دھلا دینے والے تھے کہ بین الاقوامی سطح پر ہر طرف سے اس بحران کے خاتمے کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے۔ ستمبر سن دو ہزار پندرہ میں ترکی کے ایک ساحل پر ملنے والی ایک شامی بچے ایلان کردی کی لاش کی سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی تصاویر سے حکومتوں کی نا اہلی کے خلاف غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔

Italien Hafen von Palermo Anlandung Flüchtlinge Opfer Särge
اٹلی کے ایک جزیرے پر تابوتوں کی قطاروں کی تصاویر نے دنیا بھر کی توجہ سانحے کی سنگینی کی جانب مبذول کروائی تھی تصویر: Reuters/G. Mangiapane

اکتوبر سن دو ہزار تیرہ میں بھی ایسا ہی کچھ معاملہ ہوا تھا جب ایک اطالوی جزیرے پر تین سو چھیاسٹھ مہاجرین کی لاشیں سمندر سے برآمد کی گئی تھیں اور تابوتوں کی قطاروں کی تصاویر نے دنیا بھر کی توجہ سانحے کی سنگینی کی جانب مبذول کروائی تھی۔ ان اموات کے بعد ہی اٹلی کی حکومت نے مہاجرین کوسمندر میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے وسیع پیمانے پر امدادی آپریشنز کا آغاز کیا تھا۔

بد قسمتی سے یورپ اس بحران کے حل کی تلاش پر اختلافِ رائے کا شکار ہو گیا ہے۔ گزشتہ برس یورپی یونین کے بیشتر رکن ممالک نے مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کے لازمی کوٹہ سسٹم کے حوالے سے ایک متنازعہ منصوبے کی منظوری دی تھی۔ اس کوٹے کے تحت اب تک محض اٹلی اور یونان سے ہی صرف چھ ہزار مہاجرین کو منتقل کیا گیا ہے جبکہ مشرقی اور وسطی یورپ کے ممالک نے اس منصوبے کی سختی سے مخالفت کی ہے۔

گزشتہ ہفتے ہنگری کے عوام نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے کوٹا سسٹم کو بری طرح مسترد کر دیا تھا لیکن ووٹ کی شرح کم ہونے کے باعث اس ریفرنڈم کو باطل قرار دے دیا گیا ہے۔ اسی دوران یورپی یونین نے یونان اور اٹلی میں پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے لیے ’ہاٹ اسپاٹ‘ مراکز قائم کرنے کا منصوبہ بھی شروع کیا ہے تاکہ اقتصادی وجوہات کی بنا پر آنے والے اور جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کے درمیان تمیز کی جا سکے۔

اُدھر ترک صدر رجب طیّب ایردوان نے رواں ہفتے یورپی یونین پر معاہدے کے تحت امداد کی مد میں دیے جانے والے تین بلین یورو کی فراہمی میں تاخیر کا الزام عائد کیا ہے۔ اور اس حوالے سے اب ترک یورپی یونین معاہدے کا استحکام کو بھی خطرات لاحق ہیں۔