1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیلیفورنیا میں ہم جنس شادیوں پر پابندی منسوخ

5 اگست 2010

امريکی رياست کيلیفورنيا ميں ہم جنس پرست افراد کی آپس میں شادیوں پر جو پابندی عائد کی گئی تھی، اُسے ايک وفاقی عدالت کے جج نے ختم کرنے کا حکم دے ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/Od4i
آپس میں شادی کرنے والے کيليفورنيا کے دو مرد شہریتصویر: AP

يہ شدید نوعیت کی ايک ایسی قانونی جنگ کا پہلا فائر ہے، جس کے بارے ميں اندازہ ہے کہ وہ کئی برسوں تک جاری رہے گی۔ امريکی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج واکر نے اپنے ايک تحريری فيصلے ميں ان افراد کے حق ميں فيصلہ ديا ہے، جن کا کہنا ہے کہ کیليفورنيا ميں عوامی ريفرينڈم کے نتيجے ميں ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کی ان کے ہم جنس افراد کے ساتھ شادی پر جو پابندی لگائی گئی ہے، وہ ایسا امتيازی سلوک ہے جس سے امريکی آئين کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

Homosexuelle Hochzeiten Demonstration in Hollywood
کيليفورنيا ميں ہم جنس شاديوں پر پابندی کےعوامی فیصلے کے خلاف مظاہرے کی ایک تصویرتصویر: AP

يہ ريفرينڈم نومبر سن 2008 ميں ہوا تھا اور اس ميں کيليفورنيا کے عوام ميں سے 52 فيصد نے ہم جنس پرست افراد کی آپس میں شاديوں کو قانونی طور پر ممنوع قرار دينے کی حمايت کی تھی۔ اس سے صرف چھ ماہ قبل ہی امريکی سپريم کورٹ نے ہم جنس شاديوں پر ايک سابقہ پابندی کو ختم کر دیا تھا۔

اب جج واکر نے اپنے فيصلے ميں لکھا ہے کہ سن 2008 کا ريفرينڈم مردوں اور عورتوں کی ان کے ہم جنس ساتھیوں کے ساتھ شادیوں کی ممانعت کے لئے کوئی منطقی بنياد فراہم کرنے ميں ناکام رہا ہے۔ جج واکر کے الفاظ ہيں: ’’حقيقت يہ ہے کہ ريفرینڈم نے کيليفورنيا کے آئين ميں اس نظريے کو جگہ دی ہے کہ مخالف جنس کے جوڑوں کی شادی ہم جنس جوڑوں کی شادیوں سے برتر ہے۔ چونکہ کيليفورنيا کو ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں سے کسی امتيازی سلوک ميں دلچسپی نہيں اور چونکہ ريفرینڈم، کيليفورنيا کے آئين کو، مساوی بنيادوں پر شاديوں کو ممکن بنانے کی ذمہ داری پوری کرنے سے روکتا ہے، اس لئے عدالت کا يہ فيصلہ ہے کہ يہ ريفرنڈم غير آئينی تھا۔‘‘

دوسری طرف ہم جنس افراد کی شاديوں کے مخالفين پہلے ہی يہ کہہ چکے ہيں کہ اگر جج واکر کا فيصلہ اُن کے موقف کے خلاف ہوا تو وہ اس کے خلاف اپيل دائر کريں گے۔ واکر نے بعد ميں اپنے فيصلے کوجمعہ چھ اگست تک کے لئے معطل رکھنے کا حکم جاری کيا تاکہ ہم جنس افراد کی شاديوں کے مخالفين کو اپيليں دائر کرنے کا وقت مل سکے اور امريکہ کی سب سے زيادہ آبادی والی رياست کيليفورنيا ميں ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کے درميان شاديوں کا فوری سلسلہ شروع نہ ہو جائے۔ قانونی ماہرين کا کہنا ہے کہ اپيلوں پر کارروائی کے ساتھ يہ کيس بالآخر سپريم کورٹ تک ہی پہنچے گا ليکن اس ميں کئی برس لگ جائيں گے۔

Gay Games 2010 in Köln
اگست کے شروع میں کولون میں ہونے والے ہم جنس پرست افراد کے کھیلوں کے مقابلوں کے دوران لی گئی ایک تصویرتصویر: DW

ہم جنس پرستی کے حاميوں نے جج واکر کے فيصلے پر خوشی ظاہر کی ليکن کہا کہ وہ مزيد قانونی جنگوں کی تياریاں کر رہے ہيں۔ لاس اينجلیز ميں ويسٹ ہالی ووڈ کے ’گے کميونٹی‘ کے گڑھ ميں سينکڑوں افراد نے اس عدالتی فيصلے پر خوشياں منائيں۔

ہالی ووڈ کے ڈائریکٹر اور ہم جنس افراد کی شاديوں کے حامی روب رينر نے کہا کہ يہ ’’معاملہ ايک نہ روکی جا سکنے والی قوت‘‘ حاصل کر چکا ہے۔ روب نے کہا: ’’جب ہم سپريم کورٹ ميں يہ کيس جيت ليں گے تو يہ تعليمی بورڈ کے خلاف براؤن کيس کے پہلو ميں جگہ لے لے گا۔‘‘ يہ سپريم کورٹ کے اس مشہور فيصلے کا حوالہ تھا، جس کے تحت امريکہ کے سرکاری سکولوں ميں طلبہ و طالبات کی مخلوط تعليم کو رواج ديا گيا تھا۔ روب کے بقول: ’’اس ملک ميں تبديلی آ رہی ہے۔‘‘

تاہم ہم جنس شاديوں کے مخالفين نے جج واکر کے فيصلے پر سخت تنقيد کی ہے۔ بچوں اور خاندانوں کے حق ميں مہم چلانے والی سماجی طور پر قدامت پسند ويب سائٹ SaveCalifornia.com کے رينڈی ٹامسن نے عدالتی فيصلے کو ووٹروں کے حقوق پر ايک شديد ضرب قرار ديا ہے۔ رينڈی نے کہا: ’’جج واکر نے اس آئين میں درج الفاظ کو نظر انداز کيا ہے، جس کی حمايت اور دفاع کا حلف انہوں نے اٹھايا ہے اور جس کی غير جانبدارانہ وفاداری کا انہوں نے عہد کيا ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے کيليفورنيا کے ووٹروں، والدين اور بچوں پر اپنا ہم جنس پرستی کا ايجنڈا مسلط کر ديا ہے۔ امريکن فيملی ايسوسی ايشن کے صدر ٹم وائلڈ مین نے جج واکر پر ’’عدالتی تکبر کے قطعی غير آئينی، آمرانہ اوربيہودہ مظاہرے‘‘ کا الزام لگايا۔

Eröffnung Gay Games 2010 Köln
کولون میں’گے گیمز‘ کی افتتاحی تقریب کے تین فرانسیسی شرکاءتصویر: DW/Nelioubin

نومبر سن 2008 کے ريفرینڈم کے نتيجے ميں مئی سن 2008 کا کيليفورنيا کی سپريم کورٹ کا وہ فيصلہ کالعدم ہو گيا تھا، جس ميں عدالت نے شادی کی تعريف اور معنی کا ازسر نو تعين کرتے ہوئے يہ واضح کر ديا تھا کہ شادی صرف مرد اور عورت کے درميان ہی ہوسکتی ہے۔

سن 2009 ميں کيليفورنيا کے ريفرینڈم کو کسی طرح بےاثر بنانے ميں ناکام رہنے کے بعد ہم جنس شاديوں کے حامی اس کيس کو فيڈرل کورٹ ميں لے گئے تھے۔ تاہم يہ طريقہ کار ان کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کيونکہ اس طرح يہ معاملہ سپريم کورٹ تک پہنچے گا جو اس معاشرتی مسئلے کا حتمی فيصلہ کر دے گی، جس کے خلاف اپيل کی پھر کوئی گنجائش نہيں ہوگی۔

ہم جنس شاديوں کے مخالفين کے وکيل نے اس سے قبل اسی سال 13 دن تک جاری رہنے والی عدالتی سماعت ميں يہ دليل دی تھی کہ کيليفورنيا کا عوامی ريفرینڈم قانونی تھا اور اُس کی بنياد مرد اور عورت کی شادی کی صديوں پرانی روايت پر ہے۔ تاہم جج واکر کا کہنا ہے: ’’اخلاقی برائی قرار دينے کی بنياد پر ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کی باہمی شادی کی ممانعت غير مناسب ہے۔ شہادتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ريفرینڈم نے کسی وجہ کے بغير ايک نجی اخلاقی نقطہء نظر کو منظور کيا، جس کے مطابق ہم جنس افراد کی آپس میں شادی، مخالف جنس والوں کی باہمی شادی کے مقابلے ميں کم تر ہے۔‘‘

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک