1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینیا میں تشدد جاری

2 جنوری 2008

کینیا میں انتخابی نتائج کے منظر عام پر آنے کے بعد صدر Mwai Kibaki اور اپوزیشن رہنما Raila Odinga کے حامیوںکے مابین بڑے پیمانے پر تشدد آمیز واقعات میں اب تک 300 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/DYFd
تصویر: picture-alliance/ dpa

کینیا میں انتخابات کیا منعقد ہوئے ، وہاں فسادات تھمنے میں ہی نہیں آ رہے ہیں ۔گذشتہ چند دنوں سے یہاں کی سڑکوں پر صدارتی امیدوار Raila Ordinga کے حامیوں اور پولیس کے درمیان بدترین جھڑپیں دیکھنے میں آ رہی ہیں ۔ کینیا کے متنازعہ انتخابی نتائج کے بعد ہونے والے ہنگامے قبائلی فسادات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ فسادات کے پیش نظر ہزا روں افراد اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ یہ فسادات صدر Kibaki اور اپوزیشن رہنما Odinga کے حامیوں کے مابین ہو رہے ہیں جن کا تعلق ikuyu اور Luo قبائل سے ہے۔ ان فسادات میں اب تک 300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ نیروبی شہر کی سرکاری نعش گاہ کے برآمدے اور وہاں کے کولڈ سٹوریج نعشوں سے اٹے پڑے ہیں ۔ ان لاشوں کو دیکھ کر اندازہ اگایا جا سکتا ہے ، کہ انہیں کس بیدردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ۔ مرنے والوں میں زیادہ تر گولیوں کا نشانہ بنے ۔

اب تک کی بھیانک صورت حال کا نکتہ عروج کل کا دن تھا ۔ مغربی کینیا کے شہر Eldoret میں کل بعد از دوپہر کئی سو افراد نے جب جان بچانے کے لئے ایک گرجا گھر میں پناہ لی ، تو حملہ آوروں نے اس گرجا گھر کو آگ لگا دی ۔ کم از کم 30 افراد جل کر ہلاک ہو گئے ۔صدارتی امیدوار Odinga کے انتخابی حلقے Kibera میں ہر طرف سڑکوں پر کھڑی رکاوٹوں اور جلی گاڑیوں کے ڈھانچے نظر آتے ہیں ۔ادھر یورپی یونین کے انتخابی کمیشن کے سربراہ Lamsdorff نے بھی انتخابی نتائج میں ردوبدل کی جانب اشارہ کیا ہے ۔

دریں اثنا ان الزامات میں شدت آتی جا رہی ہے ، کہ صدارتی انتخابات کے نتائج میں بڑے پیمانے پر گڑبڑ کی گئی ہے ۔ خود کینیا کے آزاد انتخابی کمیشن کے صدرSamuel Kivuitu نے ٹیلیویژن پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا ، کہ حکومتی حلقوں کی طرف سے ان پر دباو ڈالا گیا ، کہ صدر کو انتخابات میں کامیاب قرار دیا جائے ۔ افریقی یونین کے سربراہ اور گھانا کے صدر John kofour نے کینیا میں جاری تنازع کے حل کے لئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ جبکہ برطانوی وزیر اعظم Gorden Brown نے کینیا میںایک ایسی حکومت کی تشکیل پر زور دیا ہے کہ جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہو۔