1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گایتری دیوی کی رحلت

رپورٹ:عابد حسین ، ادارت : امجد علی30 جولائی 2009

بھارت کے سماجی و سیاسی حلقوں میں خاص اور منفرد سوچ اور حثیت کی حامل مہارانی گایتری دیوی طویل علالت کے باعث انتقال کر گئی ہیں۔ اُن کے انتقال پر سماجی حلقے پژمردہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/Iztm
مہارانی گایتری دیوی اپنے شوہر کے ساتھتصویر: AP

بھارت کے معاشرتی اور ثقافتی منظر نامے پر جُدا گانہ حیثیت کی حامل مہارانی گایتری دیوی نوے برس کی عمر میں انتقال کر گئی ہیں۔ وہ کچھ عرصے سے صاحبِ فراش تھیں اور گزشتہ دس دِنوں سے ہسپتال میں داخل تھیں۔

اِس سے پہلے وہ معدے کے عارضے میں بھی مبتلا چلی آ رہی تھیں۔ آخری دِنوں میں اُن کی آنتوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

Gayatri Devi Maharani of Jaipur
گایتری دیوی: سن 1977میںتصویر: AP

وہ سابقہ ریاست جے پور کے مہاراجہ سوائے مان سنگھ کی تیسری اہلیہ تھیں۔ اُن کا تعلُق کُوچ بہار کی ریاست سے تھا۔ جے پور میں اُن کو راج ماتا کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ گایتری دیوی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ تقسیم ہندوستان کے وقت اور بعد میں کئی سالوں تک اپنے پہناوے اور جدید انداز کی وجہ سے وہ بھارتی معاشرے میں ایک رول ماڈل تصور کی جاتی تھیں۔

شباب کے دور میں اُن کو بین الاقوامی فیشن جریدے ووگ نے دنیا کی دس حسین و جمیل خواتین میں شمار کیا تھا۔ اُن کے انتقال سے ایک دِن قبل اٹھائیس جولائی کو ایک اور بھارتی ساحرہ لیلیٰ نائیڈو بھی انتقال کر گئیں۔ لیلیٰ نائیڈو کو بھی گایتری دیوی کے ہمراہ ووگ میگزین نے دنیا کی حسین خواتین میں شمار کیا تھا۔

Gayatri Devi Maharani von Jaipur
گایتری دیوی، سبز ساڑھی میں،سن 2006 کی یادگار تصویرتصویر: AP

گایتری دیوی نے اپنے علاقے جے پور میں بچیوں کی تعلیم پر انتہائی زیادہ توجہ مرکوز رکھی تھی۔ اُن کا قائم کردہ پبلک سکول آج بھی قائم ہے، جو اُن کے نام پر ہے۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے جے پور میں قدیمی نیلی برتن سازی کے دم توڑتے ہُنر اور فن کی ازِ سر نو ترویج کرنے کے سلسلے میں بھی بہت کوششیں کیں۔ آج جے پور اور اطراف میں نیلی ظروف سازی کا فن ایک بار پھر اُنہی کی ہمت اور کوششں کی بدولت زندہ ہے۔ اِس قدیمی ثقافتی فن کے احیاء سے آج کل سینکڑوں افراد کا روزگارجُڑا ہوا ہے۔

بھارت کے اندر سیاسی میدان میں گایتری دیوی نے سن اُنیس سو باسٹھ میں پہلی بار لوک سبھا کے لئے الیکشن میں حصہ لیا۔ اِس الیکشن میں انہوں نے انتہائی بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ ووٹوں کا یہ فرق ایک ریکارڈ تھا، جو گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل رہا۔ بعد میں وہ سٹرسٹھ اور اکہتر میں بھی لوک سبھا کے لئے منتخب ہوئی تھیں۔

اُنہوں نے بھارت کے دوسرے گورنر جنرل راج گوپال اچاری کی سیاسی جماعت سونترا پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کی تھی۔ سن اُنیس سو ننانوے میں اُنہیں ایک بار پھر عملی سیاست میں آنے کی دعوت دی گئی تھی، جو امکاناً خرابئ صحت کی بِنا پر اُنہوں نے قبول نہیں کی تھی۔

ستر کی دہائی میں اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے وہ سرکار کے زیرِ عتاب بھی رہیں اور ٹیکس چوری کے الزام میں گرفتار ہو کر دہلی کی بدنام زمانہ جیل تہاڑ میں پانچ ماہ تک مقید بھی رکھی گئی تھیں۔

اُن کی ذات پر ایک کتاب ایک شہزادی کی یاداشتیں (A Princess Remembers) چھپ چکی ہے۔