1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گزشتہ برس چھیانوے ہزار لاوارث بچے یورپ پہنچے

عاطف بلوچ9 جولائی 2016

یورپی یونین کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس تقریبا چھیانوے ہزار لاوارث مہاجر بچوں نے یورپ پہنچے۔ سن دو ہزار چودہ کے مقابلے میں یہ تعداد چار گنا زائد قرار دی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JMKY
Das Leben eines syrischen Mädchens in Zeichnungen Idomeni Griechenland
تصویر: DW/M.Karakoulaki

خبر رساں ادارے روئٹرز نے یورپی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ سن دو ہزار پندرہ کے دوران تقریبا 96 ہزار مہاجر بچوں نے یورپی یونین کے مختلف رکن ممالک کا رخ کیا۔ ان میں سے نصف سے زائد لاوارث بچے تھے، جن کا تعلق افغانستان سے تھا۔

پناہ گزینوں کی معاونت کے یورپی ادارے EASO کے ان اعدادوشمار کے مطابق افغان بچوں کے بعد یورپی ممالک پہنچنے والے بچوں میں سب سے بڑی تعداد شامیوں کی ہے جبکہ بچوں کی مہاجرت کے تناظر میں تیسرے نمبر پر افریقی ملک اریٹریا آتا ہے۔

مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کے شورش زدہ خطوں سے بڑے پیمانے پر مہاجرت کی وجہ سے یورپ کو بھی شدید مسائل درپیش ہیں۔ اس صورتحال میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔

EASO کے اعدادوشمار کے مطابق سن دو ہزار پندرہ کے دوران یورپ میں ایک اعشاریہ چار ملین افراد پناہ کی خاطر آئے، جن میں شامیوں اور افغان باشندوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔ اس ادارے کے مطابق سن 2014 کے مقابلے میں گزشتہ برس مہاجرین اور تارکین وطن کی یورپ آمد میں 110 فیصد اضافہ ہوا۔

یورپی حکام نے پناہ گزینوں کی یورپ آمد کا حساب رکھنے کا سلسلہ سن 2008 میں شروع کیا تھا۔ EASO کے مطابق تب سے اب تک کسی بھی برس مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد نے یورپ کا رخ نہیں کیا تھا۔ اس ادارے کے مطابق ان افراد میں سے ہر تیسرا فرد جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کا ممتنی ہے۔

گزشتہ برس کے دوران یورپ پہنچنے والے شامی پناہ گزینوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ سن دو ہزار پندرہ میں یورپی ممالک پہنچنے والے شامی مہاجرین کی تعداد تین لاکھ اسّی ہزار رہی۔ اسی طرح ان پناہ گزینوں میں افغان باشندوں کی تعداد دو لاکھ کے قریب رہی، جو سن 2014 کے مقابلے میں چار گنا زیادہ بنتی ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مہاجرین کے سنگین بحران کے نتیجے میں کئی یورپی ممالک میں مہاجرین کو رہائش فراہم کرنے میں بھی مشکلات درپیش آ رہی ہیں۔ اسی باعث پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں پر عملدرآمد میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔

Frankreich Flüchtlingskinder in Calais
سن دو ہزار چودہ کے مقابلے میں یہ تعداد چار گنا زائد قرار دی جا رہی ہےتصویر: Getty Images/M. Turner
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید