1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گزشتہ ہفتے کا جنوبی ایشیا جرمن پریس میں

5 اپریل 2010

جنوبی ايشيا کے حالات و واقعات پر جرمن زبان کے پريس کی آراء اور تبصروں پر مشتمل اس جائزے۔

https://p.dw.com/p/MnBz
تصویر: AP

چين اور بھارت کا، جو عالمی سياست کے رہنماؤں کی ميز پر اپنے لئے بھی نشست کا مطالبہ کر رہے ہيں۔ اخبار Frankfurter Allgemeine Zeitung تحرير کرتا ہے کہ دونوں ممالک اس سلسلے ميں اپنی دم بخود کردينے والی اقتصادی ترقی کا حوالہ ديتے ہيں اور وہ بڑے عالمی فيصلوں ميں بھی شرکت چاہتے ہيں۔ تاہم اخبار کا نامہ نگار يہ سوال کرتا ہے کہ کيا ابھرتے ہوئے بڑے صنعتی ممالک واقعی اس حوالے سے اپنے کندھوں پر پڑنے والی ذمہ داری بھی قبول کرنے پر تيار ہيں؟ اخبار کے مطابق آب و ہوا کے مسائل پر ہونے والی پچھلی عالمی کانفرنس کے دوران اس سلسلے ميں بہت سی غلط فہمياں دور ہو گئيں ۔ اخبار مزيد لکھتا ہے: ’’بھارت اور چين ميں وہ طرز فکر مشترک ہے، جو ابھی سے پرانے مغربی صنعتی ملکوں کے لئے درد سر بن رہی ہے اور آئندہ بھی بنے گی۔ وہ بہت پس و پيش کے ساتھ ہی مغربی ممالک کے ايجنڈے کی حمايت کرتے ہيں اور اُن کا يہ کہنا ہے کہ وہ اپنے دور عروج تک پہنچنے کے بعد ہی ضوابط ميں تبديلی پر راضی ہوں گے۔ حقيقت يہ ہے کہ اُن کی اقتصادی ترقی انہی ضوابط کی مدد سے ممکن ہو سکی ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ مغربی ممالک نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں کو خواہ کتنا ہی اپنے موقف کا قائل کرنے کی کوشش کريں، اُنہيں اکثر يہ تجربہ کرنا پڑے گا کہ يہ نئے ابھرتے ہوئے صنعتی ملک اپنی ذمہ داريوں اور تنازعات کو اسی طرح سے نظر انداز کرتے رہيں گے اور اس کے ساتھ ہی عالمی تعاون کے گيت بھی گاتے رہيں گے۔ عالمی باہمی انحصار کے اس دور ميں بھی سب ملکوں کے اپنے اپنے مفادات، اہداف اور مقاصد ہيں۔ مغرب کسی نہ کسی مقصد کو ترجيح دينے پر اصرار کرے گا، صرف اس وجہ سے ہی کہ دوسرے ان کی مخالفت کريں گے، مثلاً ايران پر پابنديوں کے سلسلے ميں۔‘‘

اخبار Tageszeitung نے اُس اسٹريٹيجک مکالمت يا بہت اہم امور پرگفتگو پر تبصرہ کيا ہے جو پچھلے دنوں واشنگٹن ميں امريکی اور پاکستانی حکام کے مابين ہوئی۔ ان مذاکرات سے يہ تاثر ملا کہ دونوں ممالک کے مابين تعلقات ميں بنيادی بہتری پيدا ہو گئی ہے۔ اخبار مزيد تحرير کرتا ہے:’’پاکستانی وزير خارجہ شاہ محمود قريشی کا کہنا ہے کہ امريکہ نے اب ان بہت سے نکات کو مان ليا ہے، جو پاکستانی حکومت پچھلے دو برسوں سے پيش کر رہی تھی۔ قريشی نے کہا کہ پہلے امريکہ کا پاکستان پر اعتماد کم تھا، ليکن اب اس ميں 180 درجے کی تبديلی آ گئی ہے۔ امريکی وزير خارجہ ہليری کلنٹن کے مطابق دونوں ممالک برسوں سے موجود غلط فہمياں دور کرنے ميں مصروف ہيں۔ پاکستانيوں کے لئے يہ ضروری ہے کہ اپنی اہميت محسوس کرنے کے سلسلے میں اُنہيں بھارت سے پيچھے نہ چھوڑ ديا جائے، جس سے سابق صدر بش کے دور ميں امريکہ بہت قريب آ گيا تھا۔ پاکستانی پاليسی ساز خود اپنے ملک کے اندر شدت پسندوں سے جنگ ميں مصروف ہونے کے باوجود اب بھی بھارت ہی کو اپنا اولين دشمن سمجھتے ہيں۔‘‘

اخبار Financial Times Deutschland لکھتا ہے کہ اسٹريٹيجک مکالمت ميں حصہ لينے والے پاکستانی وفد کی خوشی کی وجہ دونوں ممالک کے مابين فضا خوشگوار ہو جانے کے علاوہ خاص طور پر پاکستان کے لئے امريکی مالی امداد کے وعدے ہيں۔ پاکستان کی اقتصادی حالت انتہائی خراب ہے۔ اخبار مزيد تحرير کرتا ہے:’’عالمی مالياتی فنڈ کے ہاتھوں، نادہندگی سے بچ نکلنے کے تقريباً ڈيڑھ سال بعد پاکستان غير ملکی، خصوصاً امريکی مالی مدد کا ہميشہ سے زيادہ محتاج بن چکا ہے۔ اقتصاديات اتنی زيادہ سست رفتار سے بڑھ رہی ہے کہ پچھلے دس برسوں ميں کبھی اُس کی رفتار اتنی سست نہيں رہی۔ بھارت عالمی بحران کے بعد پھر آٹھ فيصد اقتصادی نمو کا مظاہرہ کر رہا ہے جبکہ پاکستانی معيشت رينگ رہی ہے۔ امريکی وزير خارجہ ہليری کلنٹن کے مطابق اب امريکہ ميدان ميں چھلانگ لگانے والا ہے۔ وہ خاص طور پر معيشی ڈھانچے اور پاکستان کے بجلی کی پيداوار کے خستہ حال نظام کو بہتر بنانے ميں مدد دے گا۔ جرمن تجارت کے مينيجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان ميں سرمايہ کاروں کے لئے دوسرے تمام ملکوں سے زيادہ مواقع موجود ہیں، ليکن ملک ميں سلامتی کی بہت مخدوش صورتحال کی وجہ سے سرمايہ کاروں کے لئے بھی بہت زيادہ خطرات ہيں۔‘‘

بھارت ميں ايسے بے اولاد جوڑوں کی تعداد ميں اضافہ ہو رہا ہے جو بچے کی خواہش پورا کرنے کے لئے بطور ماں کسی ایسی عورت کی خدمات مستعار ليتے ہيں، جو اُن کے بچے کو اپنے پيٹ ميں پرورش دے سکے۔ يہ سلسلہ، اس بارے ميں آزاد خيال قانون اور کم اخراجات کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اخبار Neue Zürcher Zeitung رقم طراز ہے: ’’کسی عورت کو اپنے بچے کو جنم دينے کے لئے بطور ماں مستعار لينے والے بہت سے افراد بيرونی ملکوں سے نہيں آتے بلکہ وہ بھارتی ہی ہوتے ہيں۔ خاندان کو بہت اہميت دينے والے بھارتی معاشرے ميں بانجھ يا بے اولاد ہونا ايک عورت کے لئے قيامت خيز ہے۔ اسی لئے بھارت کے بہت سے بے اولاد اور امير جوڑے مستعار ماں کے طریق کار کی طرف متوجہ ہو رہے ہيں۔ پٹيل کلينک نامی علاج گاہ میں اب تک اس طرح سے جو بچے پيدا ہوئے ہيں، اُن ميں سے دو تہائی کے والدين بھارتی ہيں جبکہ صرف ايک تہائی بچے غير ملکی جوڑوں کے ہيں۔‘‘

اخبار مزيد لکھتا ہے کہ بے اولاد جوڑوں کا، اپنے بچوں کو پيٹ ميں رکھنے کے لئے ماں مستعار لينے کا طريقہ بھارتی معاشرے ميں متنازعہ ہے۔ بہت زيادہ روايت پسند بھارتی معاشرے ميں اسے قطعی معيوب سمجھا جا رہا ہے اور اس طرح دوسروں کے بچوں کو جنم دينی والی بہت سی مستعار ماؤں کو سماجی نفرت کا سامنا ہے۔ ان ميں سے اکثر زمانہء حمل کے دوران چھپی رہتی ہيں۔ بھارت میں قانون کتنا ہی آزاد خيال کيوں نہ ہو، معاشرہ اسے قبول نہيں کرتا۔ بعض ناقدين کا کہنا ہے کہ يہ طرز عمل بھارتی کلچر کے خلاف ہے۔ بعض دوسرے اسے معاشی استحصال قرار دے رہے ہيں اوراسے تناسلی سياحت کا نام دے رہے ہيں۔ مستعار ماؤں کے خلاف احتجاج کرنے والی پريتی کتيار کا کہنا ہے ماں مستعار لينے کا مطلب اس کے سوا کچھ اور نہيں کہ امير ملکوں کی خواتين، غريب خواتين کے پيٹ خرید رہی ہيں۔ اُن کے خيال ميں ماں مستعار لينا معاشی استحصال کی صرف ايک نئی شکل ہے۔

جائزہ : انا لیہمن / ترجمہ : شہاب احمد صدیقی

ادارت :مقبول ملک