1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گناہ دھوئیں، مگر پلاسٹک مت لائیں

افسر اعوان15 جنوری 2016

لاکھوں ہندو مرد ایک مشکل چڑھائی کی بلندی پر موجود ایک مندر میں شادی نہ کرنے والے ایک بھگوان کی پوجا کرتے ہیں اور گناہ دھونے کے لیے دریائے پمبا میں نہاتے ہیں۔ مگر ایک نئے قانون کا شکریہ کہ وہاں اب آلودگی بہت کم ہوتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HeJk
تصویر: J. Rogers

بھارتی ریاست کیرالہ میں شیروں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے نیشنل پارک کے اندر جنگلاتی علاقے میں واقع سباریمالا مندر تک آنے جانے والوں پر مقامی انتظامیہ نے یہ پابندی لگا دی ہے کہ وہ پلاسٹک کی پیکنگ والی اشیا یا بوتلیں وغیرہ ساتھ نہیں لا سکتے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ہر سال ایک کروڑ کے قریب ہندو زائرین اس مندر پر عبادت کے لیے پہنچتے ہیں۔ حالانکہ یہاں ایسی کسی خاتون کے جانے پر پابندی ہے جو بچے پیدا کرنے کی عمر میں داخل ہو چکی ہو۔

سالہا سال سے یہاں اتنی بڑی تعداد میں آنے والوں کے سبب یہ علاقہ ماحولیاتی آلودگی کا شکار تھا کیونکہ زائرین جنگلاتی علاقے میں پلاسٹک کے پیکنگ اور بوتلیں پھینک دیتے تھے۔ یہ کوڑا کرکٹ پورے جنگل میں پھیل جاتا تھا۔ پھر چونکہ یہ زائرین اپنے گناہوں سے چھٹکارا پانے کے لیے دریا میں نہاتے ہیں تو اکثر اپنے پرانے کپڑے وغیرہ وہیں چھوڑ دیتے جس کی وجہ سے دریا میں آلودگی بہت بڑھ گئی تھی۔

Indien Religiöse Zeremonie am Ganges
تصویر: picture-alliance/Wildlife/M. Harvey

گزشتہ برس مرنے والے کم از کم ایک ہاتھی اور سامبا ہرنوں کے پیٹ سے پلاسٹک کے باقیات ملے تھے جس کے بعد کیرالہ کے محکمہ جنگلات نے گزشتہ برس مقامی عدالت میں ایک پٹیشن دائر کی تھی کہ اس علاقے میں ڈسپوزایبل پلاسٹک کی چیزوں پر پابندی عائد کی جائے۔

اس طرح کی پابندیاں بھارت کے اور بھی کئی حصوں میں لگائی گئی ہیں جن میں دارالحکومت نئی دہلی بھی شامل ہے۔ تاہم نہ تو عوام ہی کی طرف سے اس پر خاطر خواہ پابندی کی جاتی ہے اور نہ ہی انتظامیہ کی طرف سے اس پر پابندی کرانے کی کوئی خاص کوشش۔ ہمالیہ کے علاقے میں ایک غار میں موجود امرناتھ مندر بھی اسی طرح کی ایک مثال ہے جو اس پہاڑ کی چوٹی پر پھیلنے والے پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔

تاہم سباریمالا کے علاقے کے حکام اور وہاں جانے والے زائرین بھی اب یہی کہتے ہیں کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد وہاں کافی تبدیلی آئی ہے۔ زائرین اپنے ساتھ لائے جانے والے پلاسٹک بیگز اور بوتلیں وہاں موجود انتظامیہ کے ورکرز کو جمع کرا دیتے ہیں۔ اس پلاسٹک کا 90 فیصد حصہ ری سائیکل کر دیا جاتا ہے جبکہ بقیہ جلایا جاتا ہے۔

ڈنوج ڈی نامی ایک زائر نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کو بتایا، ’’یہاں حیران کن تبدیلی آ چکی ہے۔ پلاسٹک کے خلاف یہ قانون وقت کی ضرورت تھا۔‘‘ قریبی ریاست کرناٹکہ سے تعلق رکھنے والا ڈنوج گزشتہ 10 برسوں سے ہر سال اس مندر تک جاتا ہے۔

تاہم ابھی بھی اس حوالے سے بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ حکام کا ارادہ ہے کہ آئندہ برس سے بجائے اس کے کہ زائرین رضاکارانہ طور پر پلاسٹک کی اشیا جمع کرائیں بلکہ ایسی اشیا ساتھ لانے والے زائرین سے خود ہی لے لی جائیں اور ان پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے۔