1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے قیام کے 60 سال مکمل

6 جولائی 2011

جرمن زبان و ثقافت کے ادارے گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے قیام کو 60 سال ہو گئے۔ جرمنی کو دنیا کے مختلف ممالک میں لسانی اور ثقافتی سطح پر فروغ دینے کے لیے اس ادارے کی بنیاد 1951ء میں جرمن شہر میونخ میں رکھی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/11pyo
گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے صدر کلاؤس ڈیٹر لہمنتصویر: picture-alliance/ dpa

ان ساٹھ برسوں میں یہ اِدارہ ثقافتی سیاست کا ایک گلوبل پلیئر بن چُکا ہے۔ دریں اثناء گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی شاخیں دنیا کے تقریباً 100 ممالک میں قائم ہو چکی ہیں۔ گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی ایک شاخ اسی سال 14 جون کو قبرص میں کھولی گئی۔ وہ بھی ایک ایسے علاقے میں، جو فوجی طور پر ممنوعہ ہے اور شمالی اور جنوبی قبرص کے درمیان واقع ہے۔ قبرص میں قائم ہونے والا یہ اِدارہ دنیا کا 150 واں گوئٹے انسٹیٹیوٹ ہے۔ رواں سال یعنی 2011ء میں اس کا قبرص میں قیام ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ اسی سال اس جرمن ادرے کی ساٹھویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ گیارہ سال قبل قبرص کے شہر نکوسیا میں قائم گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی شاخ کو نظر انداز نہ کی جا سکنے والی وجوہات کی بناء پر بند کر دیا گیا تھا۔

Deutschland Kultur Goethe Institut Zentrale in München
میونخ میں قائم گوئٹےانسنٹیٹیوٹ کا مرکزتصویر: picture-alliance/ dpa

گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے صدر کلاؤس ڈیٹر لہمن اس بارے میں کہتے ہیں۔ ’ آخری منقسم یورپی دار الحکومت کے بیچوں بیچ گوئٹے انسٹیٹیوٹ کا قیام ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ یورپ کا ایک پیغام ہے‘۔ شمالی اور جنوبی قبرص کے سنگم پر ایک نئے گوئٹے انسٹیٹیوٹ کا قیام ایک پیغام اور علامت سے زیادہ ہے۔ اس ادارے کے اہلکاروں کی سرگرمیاں محض جرمن زبان کی تدریس اور جمالیاتی ثقافت کے تبادلے کے پروگراموں تک ہی محدود نہیں بلکہ ایک عرصے سے یہ ادارہ بحرانی صورتحال میں ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے مفاہمت اور دوستانہ ماحول پیدا کرنے کی کوششیں بھی کر رہا ہے۔ جہاں سیاست کام نہ آ سکے، وہاں کوئی دوسرا ذریعہ ضرور بروئے کار لانا چاہیے۔ قبرص کے معاملے میں یونانی اور ترک قبرص کے مابین تجدیدِ تعلقات کی کوششیں بھی ضروری ہیں، یہ دونوں اب بھی خانہ جنگی کے منفی اثرات کا شکار ہیں۔

Berliner Philharmoniker Benefizkonzert März 2011
مشہور زمانہ برلن کا فلہارمونیکاتصویر: picture alliance/dpa

گوئٹے انسٹیٹیوٹ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بہت زیادہ کام ثقافتی شعبوں میں کیے ہیں۔ اس کا اندازہ عرب ممالک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بھی ہوتا ہے۔ مثلاً مصر اور تیونس میں گوئٹےانسٹیٹیوٹ عرب فنکاروں اور فلمسازوں کو جرمن فنکاروں اور فلمسازوں کے نزدیک لایا اور اشتراک عمل کی ترغیب دلائی۔ اس کے علاوہ قاہرہ میں تحریر لاؤنج میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ایسے مذاکروں کا اہتمام بھی کروایا گیا، جن میں مصر کے سیاسی بحران کے بارے میں تبادلہ خیال کا موقع فراہم کیا گیا۔ گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے صدر کلاؤس ڈیٹر لہمن کے بقول ’ ہم سابق مشرقی جرمن خفیہ پولیس اشٹازی کی فائلوں پر تحقیق کرنے والے ادارے کے ارکان کوبھی قاہرہ لے کر آئے تاکہ وہ یہاں بتا سکیں کہ خفیہ فائلوں کو کیسے برتا جانا چاہیے اور یہ کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی نے اس سلسلے میں کیا کیا؟ مطلب یہ کہ ہم فن و ثقافت کے شعبوں میں ہی نہیں بلکہ سماجی و سیاسی شعبوں میں بھی آپس میں تعاون کرتے ہیں‘۔

Flash-Galerie Staatsoper zieht um 19
برلن کا اسٹیٹ اوپراتصویر: Yasmin Khalifa

60 سال قبل جب گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی گئی تھی، تب اِس قسم کی ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ اور نیشنل سوشلسٹوں کے جرائم کے بعد جرمنی اپنی ساکھ کھو بیٹھا تھا۔ 1951ء میں وفاقی جمہوریہ جرمنی کے قیام کو فقط دو سال ہوئے تھے۔ تب جرمنی کے لیے سب سے اہم مسئلہ عالمی سطح پر کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنا تھا۔ اس کے لیے جرمنی نے اونچی چھلانگیں لگانے کی بجائے چھوٹے چھوٹے اقدامات کیے۔ گوئٹے انسٹیٹیوٹ کا قیام انہیں اقدامات میں سے ایک تھا۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں