1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گھریلو ملازماؤں کے بچوں کو مفت تعلیم دینے والی روبینہ شکیل

تنویر شہزاد، لاہور2 اکتوبر 2015

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں گمنام ہیرو روبینہ شکیل بھی رہتی ہیں جو گزشتہ بارہ برسوں سے امیر گھرانوں میں کام کرنے والی ملازم خواتین کے، بھکاری اور خانہ بدوش بچوں میں بغیر کسے معاوضے کے علم کا نور بانٹ رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Ghmn
DW Postings 11 LocalHeroes URDU
تصویر: DW/T. Shahzad

لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ روبینہ شکیل نامی یہ خاتون نادار بچوں کی تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات پورا کرنے کے لیے لوگوں کے گھروں سے کچرا جمع کرواتی ہیں اور اسے ری سائیکلنگ کے بعد فروخت کر کے حاصل ہونے والی آمدنی سے علم کا نور پھیلا رہی ہیں۔

آبرو ایجوکیشنل ویلفئر آرگنائزیشن کی بانی اور سربراہ روبینہ شکیل 1980ء میں نویں جماعت کی طالبہ تھیں جب ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ وہ اپنے چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ اس موقع پر انہوں نے کسی سے مدد لینے کی بجائے اپنے مسائل خود حل کرنے کا فیصلہ کیا اور گھر کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے ٹوئیشنز پڑھائیں اور اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے اپنے گھر کا سہارا بنیں۔ یہی وہ لمحہ تھا جب انہیں کم وسیلہ لوگوں کی تعلیمی اور اقتصادی مشکلات کا شدت سے احساس ہوا۔

Pakistan AABRO Kinderhilfe
اس وقت ان کے فلاحی ادارے کے ذریعے لاہور سرگودھا اور واہ کینٹ میں قائم کیے جانے والے دس اسکولوں میں 3600 سے زائد بچے پڑھ رہے ہیںتصویر: DW/T. Shahzad

روبینہ کی جدوجہد کا سفر جاری رہا اور حالات بہتر سے بہتر ہوتے چلے گئے۔ پھر گھریلو ذمہ داریوں سے بخوبی نبرد آزما ہو جانے کے بعد ان کی شادی ایک ایسے متمول اور نیک دل شخص کے ساتھ ہو گئی جو خود بھی خدمت خلق کا جذبہ رکھتا تھے۔

یہ سن دو ہزار تین کے جنوری کی پہلی تاریخ تھی، جب روبینہ کے شوہر شکیل قریشی اپنے گھر سے دفتر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ روبینہ نے ان کو روک کر کہا کہ وہ اپنے گھر میں کام کرنے والے ملازموں کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری اٹھانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے اس خیال کی تحسین بھی کی اور ساتھ دینے کا بھی وعدہ کیا۔

Pakistan AABRO Kinderhilfe
کم نمبروں والے بچوں کی مزید تعلیم کے لیے لاہور میں آبرو کا ایک کالج بھی زیر تعمیر ہے۔تصویر: DW/T. Shahzad

گورنمنٹ ایمپلائز کواپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کے بنگلہ نمبر 153 کے کار پورچ میں پانچ بچوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پھر آس پاس کی کوٹھیوں میں کام کرنے والے ملازموں کے بچے بھی آن شامل ہوئے۔ اس طرح یہ سکول بنگلے کی چھت پر چلا گیا اور پھر کچھ ہی دنوں میں اسی علاقے میں موجود کرائے کی ایک عمارت میں منتقل ہو گیا۔

آج روبینہ شکیل اور ان کے شوہر انجینئیر شکیل قریشی 7000 سے زائد گھروں اور دفتروں سے ہر ہفتے 9 لاکھ مالیت کا 13 ٹن خشک کچرا اور پرانی قابل استعمال اشیاء جمع کرواتے ہیں، جس سے ان کے اسکولوں کے 29 فیصد اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ شکیل قریشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک امیر گھرانے کا ایک ماہ کا کچرا ایک غریب گھر کے بچے کی تعلیم کا ایک ماہ کا خرچ پورا کر سکتا ہے۔ یہ فلاحی ادارہ باقی اخراجات عطیات اور صدقات کے ذریعے پورے کرتا ہے۔

Pakistan AABRO Müllrecycling
روبینہ شکیل بچوں کی تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات پورا کرنے کے لیے لوگوں کے گھروں سے کچرا جمع کرواتی ہیں اور اسے ری سائیکلنگ کے بعد فروخت کر کے حاصل ہونے والی آمدنی سے علم کا نور پھیلا رہی ہیںتصویر: DW/T. Shahzad

اب سینکڑوں لوگ آبرو ایجوکیشنل ویلفئر آرگنائزیشن کو پرانے یونیفارم، پرانے اسکول بیگ، پرانے برتن ، پرانا فرنیچر، اخبارات کی ردی، پرانے جوتے، پرانے کھلونے، پرانے کپڑے، کتابیں، کاپیاں ، جیومٹری بکس، پنسل ربڑ، گوشت، دالیں، گھی اور تیل کے خالی ڈبے دے رہے ہیں۔ اس کچرے سے کاغذ الگ کرکے ریسائیکلنگ کے لیے کاغذ کے مقامی کارخانے کو فروخت کر دیا جاتا ہے جبکہ آبرو نے پلاسٹک کی بوتلوں کی ریسائیکلنگ کے لیے اب اپنا پلانٹ لگا لیا ہے۔

Pakistan AABRO Kinderhilfe
ایک امیر گھرانے کا ایک ماہ کا کچرا ایک غریب گھر کے بچے کی تعلیم کا ایک ماہ کا خرچ پورا کر سکتا ہےتصویر: DW/T. Shahzad

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے روبینہ شکیل نے بتایا کہ اس وقت ان کے فلاحی ادارے کے ذریعے لاہور سرگودھا اور واہ کینٹ میں قائم کیے جانے والے دس اسکولوں میں 3600 سے زائد بچے پڑھ رہے ہیں۔ ان کے بقول ان کے ادارے کا کسی سیاسی، مذہبی یا لسانی جماعت سے تعلق نہیں ہے، ’’آبرو کے اسکولوں میں 50 سے زائد غیر مسلم مسیحی بچے اور 600 سے زائد خانہ بدوش بچے بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہمارے ادارے کی معاونت سے اب تک ایک لاکھ سے زائد بچے علم کی روشنی سے مستفید ہو چکے ہیں۔ 80 فیصد سے زائد نمبر لینے والے بچوں کو ہم اپنے خرچ پر کالج میں داخل کرواتے ہیں جبکہ کم نمبروں والے بچوں کی مزید تعلیم کے لیے لاہور میں آبرو کا ایک کالج بھی زیر تعمیر ہے۔‘‘

روبینہ کے بقول آبرو کے اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو صرف کتابیں، یونیفارم اور تعلیم ہی نہیں بلکہ کھانا اور دودھ بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کو صحت کی سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ پولیو کے قطرے بھی باقاعدگی کے ساتھ پلوائے جاتے ہیں اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے انہیں حفاظتی ٹیکے بھی لگوائے جاتے ہیں۔ یہ ادارہ لیٹریسی پروگرام کے تحت جھگیوں میں رہنے والے بچوں کو بھی تعلیمی سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سن دو ہزار چار میں ان کے پاس ایک ایسی بارہ سالہ بچی لائی گئی جو بھیک مانگنے کا آٹھ سالہ تجربہ رکھتی تھی، ’’ہم نے اسے تعلیم دی ، آج وہ لڑکی ہمارے جوہر ٹاؤن کیمپس میں بطور ٹیچر کام کر رہی ہے۔‘‘

روبینہ شکیل آبرو کی فلاحی خدمات کا دائرہ ملک کے دوسرے حصوں تک وسیع کرنا چاہتی ہیں لیکن ان کو ابھی اندازہ نہیں ہے کہ وہ کب اس قابل ہو سکیں گی کہ یہ ذمہ داری اٹھا سکیں۔