1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’گھر تو آخر وہیں ہوتا ہے جہاں آپ کا خاندان ہو‘

شمشیر حیدر22 دسمبر 2015

سمیر کے خاندان کے لوگ عموماﹰ روتے نہیں، لیکن اس وقت میاں بیوی کے ساتھ ان کے چاروں بچوں کی آنکھوں میں بھی آنسو چھلک رہے ہیں۔ عراق سے طویل سفر کے بعد آخر کار وہ جرمنی پہچ چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HRuQ
Ungarn Budapest Ostbahnhof Flüchtlinge Zug Frau
تصویر: DW/L. Scholtyssyk

چھ لوگوں پر مشتمل یہ عراقی ایزدی خاندان اب جرمنی کے شہر ہائیڈلبرگ میں اپنی زندگی ازسرنو شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چار بچوں کی ماں بعثی قاسم عراق میں گزری زندگی کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگیں، ’’ہمارا اپنا گھر تھا۔ زندگی اچھی تھی۔ کبھی کسی کی مدد مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔‘‘

لیکن اب اسے ایک نئے ملک اور نئے ماحول میں اپنا گھر دوبارہ سے بنانا ہے، ’’میں بس اپنے بچوں کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔ انہیں بڑے ہوتے دیکھنا چاہتی ہوں۔ میری کوشش ہے کہ ماضی کی تلخ یادوں کو خوش گوار خوابوں سے بدل دوں۔‘‘

پینتالیس سالہ بعثی جن تلخ یادوں کی بات کر رہی ہیں، وہ موت سے متعلق ہیں۔ دولت اسلامیہ (داعش) کی جانب سے قتل کیے جانے کا خوف، سمندر کی متلاطم لہروں کی نذر ہو جانے کا ڈر اور اپنی نوجوان بیٹی کے کینسر جیسے جان لیوا مرض سے بچ نہ پانے کا خدشہ۔ ایزدی خاندان نے ان سب کا سامنا کیا۔

دولت اسلامیہ نے اگست 2014ء میں عراقی شہر سنجار پر قبضہ کر لیا تھا۔ اگر سمیر اپنے خاندان کے ہمراہ ایک ٹرک میں چھپ کر وہاں سے بھاگنے کا فیصلہ نہ کرتا تو شاید اس کے خاندان کا بھی وہی حشر ہوتا جس کا سامنا ایزدی اقلیت سے تعلق رکھنے والے دیگر خاندانوں کو کرنا پڑا۔

داعش نے ان کے مردوں کو قتل کر کے کی عورتوں کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ پیچھے رہ جانے والے سمیر کے کزن اور اس کے خاندان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

عراق سے ترکی پہنچ کر سمیر پندرہ ماہ تک اس تگ و دو میں مصروف رہا کہ کسی طرح وہ اپنی زندگی وہاں شروع کر سکے۔ لیکن وہاں اسے کام کی اجازت بھی نہیں تھی اور اس کے بچوں کو بھی ایزدی ہونے کے باعث تعصب کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پندرہ ماہ تک یہ سب برداشت کرنے کے بعد اس نے یورپ کا رخ کیا۔

خاندان کے چھ افراد کو ترکی سے یورپ پہنچانے کے لیے ترکی میں موجود انسانوں کے اسمگلروں نے دس ہزار ڈالر مانگے۔ سب کچھ عراق میں چھوڑ آنے والے سمیر کے پاس اتنی رقم نہیں تھی۔ لیکن اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس کا ایک بھائی پہلے ہی سویڈن میں پناہ حاصل کر چکا تھا اور اس نے انہیں رقم پہنچا دی۔

انہیں جس کشتی میں سوار کیا گیا اس میں پہلے ہی ضرورت سے زیادہ افراد موجود تھے۔ بیچ سمندر ان کی کشتی کا انجن بند ہو گیا۔ اس وقت انہیں سمندر میں چاروں طرف موت دکھائی دے رہی تھی۔

سمیر کہتا ہے، ’’اس وقت مجھے یقین ہو چکا تھا کہ اب موت سے بچنا ناممکن ہے۔ میں نے خدا سے دعا کی میرے خاندان کی جان بچ جائے۔‘‘

ان کی خوش قسمتی تھی کہ یونانی ساحلی محافظوں نے انہیں دیکھ لیا اور ان کی کشتی کو کھینچ کر لیسبوس کے جزیرے تک لے آئے۔ یوں وہ لوگ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہو گئے۔

یونان سے دن رات سفر مسلسل سفر کے بعد آخر کار وہ سات دسمبر کی شام جرمنی آ پہنچے اور یہاں پناہ کی درخواست دے دی۔ اب انہیں ہائیڈلبرگ شہر میں قائم تارکین وطن کے ایک شیلٹر ہاؤس میں رہائش مل گئی ہے۔

سمیر اور بعثی کی تیرہ سالہ بیٹی، دنیا جگر کے کینسر میں مبتلا ہے۔ دنیا کہتی ہے، ’’میں تندرست ہو کر بڑی ہونا چاہتی ہوں۔ جرمنی اور یہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں۔‘‘ دنیا کے مرض کا علاج جاری ہے۔

ان کا دس سالہ بیٹا دلدار فٹبال کھیلنے کا شوقین ہے اور وہ بڑا ہو کر جرمنی کی بنڈس لیگا میں کھیلنا چاہتا ہے۔ سترہ سالہ دلشاد اور اٹھارہ سال کی بیٹی ڈیلفینے جنوری سے اسکول جانا شروع کر دیں گے۔ ڈیلفینے ڈاکٹر بن کر لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔

سمیر اب واپس عراق جانا نہیں چاہتا۔ اس کے مطابق، ’’عراق برباد ہو چکا ہے۔ اب وہ میرا اور میرے خاندان کا گھر نہیں رہا۔ گھر تو آخر وہیں ہوتا ہے جہاں آپ کا خاندان ہو۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید