1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گیمبیا کے شہری ہجرت پر کیوں مجبور ہیں؟

عاطف بلوچ، روئٹرز
25 دسمبر 2016

آنسو سانیانگ تمام تر محنت کے باوجود بہت کم پیسے کمانے سے تنگ آ کر آخر کار یورپ پہنچنے کی کوشش کا سوچ رہے ہیں۔ اپنے مسائل کا حل وہ لیبیا کے ذریعے بحیرہء روم عبور کر کے یورپ پہنچنے اور نئی زندگی شروع کرنے کو سمجھتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2UrFB
Italien Catania Flüchtlingsheim
تصویر: Getty Images/AFP/A. Pizzoli

طویل عرصے تک صدر رہنے والے یحیٰ جامع کی جانب سےعہدہ صدارت چھوڑنے کے بعد یکم دسمبر کو ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے، تو سانیانگ نے یورپ جانے کا فیصلہ تبدیل کر لیا۔

’’میں نے ذہن بدل لیا تھا۔  میں خوش تھا، بہت خوش کیوں کہ مجھے یقین تھا کہ نئے صدر ملک کو مسائل سے نکال لیں گے۔‘‘

22 سال تک گیمبیا پر جامع کی حکومت رہی، تاہم حالیہ انتخابات میں غیرمتوقع طور پر ریل اسٹیٹ کے کاروبارہ سے وابستہ اداما بارو کامیاب ہو گئے اور جامع نے اپنی شکست بھی تسلیم کر لی۔

تاہم انتخابات کے نتائج پر تنازعے اور سیاسی بحران نے ایک مرتبہ پھر گمبیا کے شہریوں میں بے یقینی پیدا کر دی ہے۔

گمبیا کے شہروں کا شمار فی کس صحارا کے ریگستان کو عبور کر کے نائجر اور لیبیا پہنچنے اور پھر بحیرہء روم عبور کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والوں میں سب سے زیادہ ہے۔

انتخابات میں کامیاب ہونے والے بارو نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا، ’’گمبیا میں سیاسی بحران ہے اور اسی وجہ سے لوگ ایک مرتبہ پھر ہجرت اختیار کر رہے ہیں۔‘‘

بارو خود بھی لندن میں تعلیم کے دوران ایک محافظ کی نوکری کر چکے ہیں اور ترک وطن کی صورت حال سے اچھی طرح واقف ہیں۔

ان کا کہنا ہے، ’’آپ یورپ کا نام سنتے ہیں اور آپ کو خیال آتا ہے کہ یورپ کوئی جنت ہے، مگر ایسا حقیقت میں ہر گز نہیں۔‘‘

جامع کا تاہم کہنا کچھ اور ہے، ’’کوئی بھی شخص جو ہجرت کرنا چاہتے ہیں، اسے جانے دینا چاہیے۔ یہ انفرادی فیصلے کی بات ہے۔ ہر کسی کو اپنی جگہ کے انتخاب کا حق ہے۔ لوگ ایسا غربت کی وجہ سے نہیں کرتے۔‘‘