1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہابرماس کا شخصی خاکہ

22 جون 2009

18 جون 1929ء کو جرمنی کے شہر ڈسلڈورف میں پیدا ہونے والے ہابرماس کی 80 ویں سالگرہ جرمنی کے فکری اور ادبی حلقوں میں اس سال منائی گئی۔

https://p.dw.com/p/IWKY
کو ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کا اعزاز بھی ہےتصویر: dpa

اپنے سماجی نظریات کے لئے بے شمار بین الاقوامی اعزازات حاصل کرنے والے ہابرماس کو ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کا اعزاز بھی ہے۔ 1955ء میں رشتہ ازدواج میں بندھنے والے ہابرماس تین بچوں کے باپ ہیں۔

سیاسیات، سماجیات اور اقتصادیات کے شعبوں کا ناقدانہ نظر سے جائزہ لینے والے ہابرماس کی فلسفیانہ تحریریں، جن کے تراجم 23 سے زیادہ زبانوں میں ہوچکے ہیں، دنیا بھر میں شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ اپنے علمی سفر کے دورا ن انہوں نے دنیا بھر میں مختلف ممالک کے دورے بھی کئے۔ ان ممالک میں چین، امریکہ اور ایران خصوصی طور پر شامل ہیں، جہاں دانشوروں اور طالب علموں نے ان کی زبردست پذیرائی کی۔

Deutschland Philosophie Jürgen Habermas Frankfurter Schule
ہابرماس کی فلسفیانہ تحریروں کے تراجم 23 سے زیادہ زبانوں میں ہوچکے ہیںتصویر: picture-alliance / akg

ہابرماس نے اپنے دور کے مشہور اساتذہ Theodor Adorno اور Max Hoekheimer سے تعلیم حاصل کی اور انہی کے اس مشہور ناقدانہ سماجی نظریے کو آگے بڑھایا، جس میں معاشرے کے بارے میں خیالات و افکار کی تشکیل کے لئے ٹھوس تاریخی حالات و واقعات اور عوامل کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اس نظریے کو فرینکفرٹ مکتبہء فکر کا نظریہ بھی کہا جاتا ہے۔

ساٹھ کے عشرے کے اواخر میں ہابرماس کی تحریروں کے اثرات خاص طور پر اس دور کے طالبعلموں نے قبول کئے۔ لیکن جب ان میں سے طلبا کا ایک گروہ نسلی انتہاپسندی کی طرف مائل ہوا، تو ہابرماس کو یورپ میں ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ اس وجہ سے ہابرماس نے طلبا تحریک کے اس انتہاپسند حصے سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

ہابرماس کا یہ نظریہ کہ عالمگیریت کے اس دور میں قومی حکومتوں کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے، دنیا بھر کے فکری حلقوں میں بحث کا موضوع رہا ہے ۔ ان کے نظریات میں اس امر کو ہمیشہ مرکزی اہمیت حاصل رہتی ہے کہ جمہوریت کو مستحکم بنیادیں فراہم کی جائیں۔ ہابرماس فرینکفرٹ اسکول کے ساتھ ساتھ ہائیڈل برگ اور اسٹارن برگ میں بھی پڑھاتے رہے ہیں، جبکہ مہمان پروفیسر کے طور پر وہ امریکہ اور فرانس کی یونیورسٹیوں سے بھی وابستہ رہے ہیں۔

رپورٹ انعام حسن

ادارت امجد علی