1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہالینڈ کے شہرالمیرے میں دائیں بازو کی جماعت کی کامیابی

5 مارچ 2010

نیدرلینڈ کے شہر Almere میں بلدیاتی انتخابات میں دائیں بازو کے سخت نظریات رکھنے والی سیاسی جماعت 'پارٹی فار فریڈم' کی کامیابی نے شہر کے مسلمانوں کوحیران کردیا ہے۔

https://p.dw.com/p/MKWB
المیرے میں ووٹنگتصویر: picture-alliance/dpa

پارٹی فار فریڈم نے ان انتخابات میں 21.6 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں،جس سے یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اس جماعت کو جون کے عام انتخابات میں پہلے سے زیادہ ووٹ ملیں گے۔ رائے عامہ کے بعض جائزوں کے مطابق اب فریڈم پارٹی ملک کی سب سے مقبول ترین پارٹی بن چکی ہے۔

اس پارٹی کی 150 رکنی ڈچ پارلیمنٹ میں نو نشستیں ہیں جب کہ یورپین پارلیمنٹ میں بھی یہ جماعت ملک کی 25 نشستوں میں سے پانچ نشستیں رکھتی ہے۔

اس پارٹی کے سربراہ Geert Wilders مسلمانوں اور دوسرے تارکینِ وطن کے حوالے سے سخت بیانات دینے کی وجہ سے کافی متنازعہ رہے ہیں۔ Wilders ہالینڈ میں سرکاری خواتین ملازمین کے حجاب پہننے پر پابندی لگانے کی مہم چلاتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ مزید مسجدوں کی تعمیر روکنے اور مسلم ممالک سے تارکینِ وطن کی ہالینڈ کی طرف ہجرت کرنے کے بھی خلاف ہیں۔

اپنی کامیابی کے بعد Wilders نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسلمانوں کو اُن کی فتح سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں۔ تاہم اِس بیان سے مسلمانوں کی تشویش میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

ِان انتخابات میں بڑی شکست سے دوچار ہونے والی ڈچ مسلم پارٹی کے سربراہ Henny Kreeft نے پارٹی فار فریڈم کی کامیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ Wilders کی کامیابی کے پیچھے ایک ایسے خوف کا عنصر کار فرما ہے، جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

Nach Kommunalwahlen in den Niederlanden Geert Wilders Flash-Galerie
الیکشن میں کامیابی کے بعد دائیں بازو کی پارٹی کے لیڈر Geert Wilders کے تقریب میںتصویر: dpa

کئی مسلمان شہریوں نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بیس سالہ Sakina Buyatui کا کہنا ہے کہ اس کامیابی سے 190,000 کی آبادی والے شہرAlmere میں مزید نفرت بڑھے گی۔

ترک نژاد Kadriye Kacar کا کہنا ہے کہ فریڈم پارٹی کی کامیابی کے بعد لوگ ہمیں ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہ وہ ہمیں پیغام دینا چاہ رہے ہوں کہ وہ جیت گئے ہیں اور اب تارکینِ وطن کو واپس اپنے ملکوں میں جانا پڑے گا۔

لیکن فریڈم پارٹی کے حمایتی نیدرلینڈ کی مبینہ اسلامائزیشن سے نالاں ہیں۔ ایک انیس سالہ ڈچ نوجوان کا کہنا تھا کہ اُسے ایک بیرے کے طور پر ہوٹل میں کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ کام کے بغیروہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتا اور یہ کہ حکومت سے اُس کو کوئی مدد نہیں ملتی۔

اُس نے دعویٰ کیا کہ نیدرلینڈ کی سوشلسٹ حکومت غریبوں پر بہت خرچ کررہی ہے اور ملک میں غریبوں کی ایک بڑی تعداد مسلمان برادری سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لئے حکومت در حقیقت مسلمانوں پر زیادہ خرچ کررہی ہے۔

Wilders کے ایک 62 سالہ حمایتی کا کہنا تھا کہ اس نے سیکیورٹی کے مسئلے کی وجہ سے فریڈم پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔

رپورٹ : عبدالستار

ادارت: کشور مصطفی