1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہتھیار بیچنے والی عالمی کمپنیوں کی نگاہ بھارت پر

1 نومبر 2010

امریکی صدر باراک اوباما کے دورہء بھارت سے قبل ہتھیار فروخت کرنے والی عالمی کمپنیوں نے نئی دہلی میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔

https://p.dw.com/p/PvYs
تصویر: AP

یہ کمپنیاں بھارتی فضائیہ کو درکار 126 کثیر المقصد جنگی طیارے سپلائی کرنے کے لئے 12 بلین ڈالر کا ٹھیکہ حاصل کرنے کے لئے تمام حربے آزما رہی ہیں۔دفاعی ساز وسامان تیار کرنے والی امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے پچھلے دنوں نئی دہلی میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا اور بھارت کے دفاعی ماہرین اور اعلیٰ حکام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اس کے سنگل انجن والے ایف 16سپر وائپر جنگی طیارے کا کوئی دوسرا جنگی طیارہ مقابلہ نہیں کر سکتا۔

دوسری طرف یورو فائٹر جیٹ بنانے والی یورپی کمپنی EADS کے اعلیٰ حکام بھی نئی دہلی میں ڈیرے جمائے ہوئے ہیں اور وہ ہر حال میں اپنے امریکی حریفوں کو شکست دینا چاہتے ہیں۔بہر حال امریکی کمپنیوں کو صدر باراک اوباما کے دورے کی وجہ سے یورپی کمپنیوں پر ایک حد تک جو سفارتی اور سیاسی برتری حاصل ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

نئی دہلی میں تجزیہ نگارو ں کا خیال ہے کہ اس بڑے دفاعی سودے نے سیاسی رنگ اختیار کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر صدر اوباما بھارت کو کسی بڑی رعایت کا اشارہ دیتے ہیں یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت حاصل کرنے کی بھارتی کوششوں کی حمایت کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اربوں ڈالر کا یہ دفاعی سودا امریکی کمپینوں ہی کی جھولی میں ڈال دیا جائے گا۔

Modell einer Talarion Drohne des Konzern EADS
تصویر: Tangopaso/sa

لاک ہیڈ مارٹن کے ڈائریکٹر مائیکل آر گرس وولڈ نے پاکستان کو دئے جانے والے ایف 16 جنگی طیاروں کے حوالے سے بھارت کی تشویش دور کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو اور بھی جدید تر ایف 161N سپر وائپر جنگی طیارے سپلائی کئے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا: ’’یہ چوتھی جنریشن کا جدید ترین جنگی طیارہ ہے اور بھارتی فوج میں شامل ہونے کے لئے تیار ہے۔“

انہوں نے کہا، ’اس جنگی طیارے کا انجن، ا س کے آلات اور ریڈار انتہائی جدید ترین اور بے مثال ہیں۔‘ انہوں نے اس کے ریڈار سسٹم کی خوبی بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ’’اتنا حساس ہے کہ پاکستانی فضائیہ کے کسی بھی اڈے سے کسی جہاز کے ٹیک آف کرتے ہی اس کی خبر دے دے گا۔“

انہوں نے مزید کہا کہ اس ریڈار سسٹم کا نہ صرف تجربہ کیا جا چکا ہے بلکہ یہ متحدہ عرب امارات کی فضائیہ میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنگل انجن ہونے کی وجہ سے اس طیارے کو ڈبل انجن والے جنگی طیاروں پر برتری حاصل ہے۔

دوسری طرف یورپی کمپنی EADS کا کہنا ہے کہ وہ جو جنگی طیارے سپلائی کرنا چاہتی ہے، ان کے کچھ آلات بھارت میں ہی تیار کئے جائیں گے۔ اس سے بھارت میں ملازمتوں کے بیس ہزار نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی پیشکش ہے جسے نظر انداز کرنا بھارتی سیاسی رہنماؤں کے لئے ذرا مشکل ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ یورپی کمپنیا ں جو جنگی طیارے سپلائی کرنا چاہتی ہیں، وہ تکنیکی لحاظ سے امریکہ کے ایف 16 سپر وائر سے زیادہ بہتر ہے۔

اربوں ڈالر کے اس سودے کو حاصل کرنے کے لئے دیگر کمپنیاں بھی دوڑ میں شامل ہیں۔ ایف اے 18سپر ہارنیٹ بنانے والی بوئنگ کمپنی بھی اس سودے کو حاصل کرنے کے لئے پوری کاوشیں کر رہی ہے۔ مگ 35 بنانے والی روس کی مائکن کے علاوہ فرانس اور سویڈن کی کمپنیاں بھی ہتھیاروں کے اس سودے کے لئے دوڑ میں ہیں۔ لیکن تکنیکی لحاظ سے یا سیاسی دسترس نہ ہونے کی وجہ سے یہ کمپنیاں اپنی کامیابی کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہیں۔

یورپی کمپنیوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ اربوں ڈالر کا سودا حاصل کرنے کے لئے اپنے مینوفیکچرنگ یونٹ بھارت منتقل کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ بھارت میں تکنیکی ماہرین اور افرادی قوت سستے داموں دستیاب ہیں۔ لیکن تجزیہ کار اسے بہرحال حکومت پر بالواسطہ دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش قرار دیتے ہیں۔

اس دوران نئی دہلی میں متعین جرمن سفیر تھامس مٹوسیک نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دیگر ملکوں کے اداروں اور یورپی کمپنیوں میں کافی فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفاع اور سکیورٹی سے متعلق ساز و سامان کی خرید و فروخت میں end-user certificate ایک لازمی چیز ہے۔ دنیا بھر کے تمام ایکسپورٹر اس پر اصرار کرتے ہیں لیکن ہم اس پر اصرار نہیں کرتے۔ ہم ان کے استعمال پر نگاہ رکھنے یا کسی بھی موقع پر جائزہ لینے پر اصرار نہیں کرتے۔ ’’یہ چیز ہمیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔‘‘

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں