1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہراساں کیا، جی نہیں! برطانوی سیاست میں ایک اور اسکینڈل

1 نومبر 2017

برطانوی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ان کی قدامت پسند پارٹی کے ایک سینیئر سیاستدان پر عائد کردہ ’ہرساں کرنے‘ الزامات کی تفتیش کی جائے۔ حالیہ دنوں کے دوران برطانوی سیاسی منظر نامے پر کئی خواتین کی طرف سے ایسے الزامات کیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2mrCB
Sexuelle Belästigung am Arbeitsplatz
تصویر: picture-alliance/dpa/Frank May

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے حوالے سے بتایا ہے کہ ادیبہ اور ماہر تعلیم برطانوی شہر کیٹ مالٹبی کی طرف سے عائد کردہ ایسے الزامات کی مکمل اور جامع تفتیش کی جائے، جن کے تحت دعویٰ کیا گیا ہے کہ مے کی کابینہ کے اعلیٰ عہدیدار ڈیمیئن گرین نے انہیں ہراساں کیا تھا۔

نصف سے زائد برطانوی خواتین کو جنسی ہراس کا سامنا

’نظروں، الفاظ اور حرکتوں سے ہراساں کیا جاتا ہے‘

آن لائن ہراساں نہ ہوں، مدد کے لیے مفت ہیلپ لائن پر کال کریں

’پاکستانی خواتین کو کس کس طرح کے خوف‘

مالٹبی کی طرف سے لگائے جانے والے اس الزام کے بعد برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے کہا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو ان الزامات کی صداقت جاننے کی کوشش کرے۔

مالٹبی کا کہنا ہے کہ دن دو ہزار پندرہ میں ڈیمیئن نے ان کے گھٹنے کو نامناسب طریقے سے چھوا تھا اور بعد ازاں ’بین السطور میں جنسی نوعیت کے ذومعنی پیغامات‘ بھی ارسال کیے تھے۔ مالٹبی کے بقول یہ تب کی بات ہے، جب ایک اخبار میں ان کی ایک تصویر شائع ہوئی تھی، جس میں انہوں نے شکم بند پہنا ہوا تھا۔

مالٹبی نے روزنامہ ’ٹائمز آف لندن‘ میں شائع ہونے والی اپنی ایک تحریر میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ گرین نے انہیں مستقبل کے حوالے سے ’کیریئر ایڈوائز‘ دیتے ہی ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ وہ جنسی طور پر ان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

مالٹبی نے مزید لکھا، ’’تب یہ میرے لیے ناقابل قبول تھا اور مستقبل میں ویسٹ منسٹر کے لیے بھی یہ قابل قبول عمل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

ٹریزا مے کے نائب تصور کیے جانے والے ڈیمیئن گرین نے ایسے تمام تر الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ انہوں نے جنسی سطح پر نامناسب رویے کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’یہ جھوٹا الزام ہے۔ یہ میرے لیے ایک دھچکا ہے کیونکہ یہ الزام ایک ایسے شخص نے عائد کیا ہے، جسے میں اپنا دوست سمجھتا تھا۔‘‘

برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مے نے سول سروسز کے سربراہ کو کہا ہے کہ وہ ان الزامات کی چھان بین کریں اور جتنی جلدی ممکن ہو، انہیں رپورٹ پیش کی جائے۔