1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہرجانہ اعتراف جرم نہیں: کلارک

17 نومبر 2010

برطانوی حکام نے واضح کیا ہے کہ گوانتا نامو بے جیل کے سولہ سابق قیدیوں کو ہرجانے کی ادائیگی کا مطلب ان پر کئے گئے تشدد کی ذمہ داری قبول کرنا ہر گز نہیں۔

https://p.dw.com/p/QArC
بن یامین محمد، فائل فوٹوتصویر: AP

لندن حکومت کی جانب سے منگل کو اعلان کیا گیا ہے کہ گوانتا نامو جیل کے سولہ سابق قیدیوں کے ساتھ عدالتی معاملہ ایک ڈیل کے ذریعے نمٹادیا گیا ہے۔ ابھی یہ نہیں بتایا گیا کہ ان قیدیوں کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کے جواب میں انہیں کتنا ہرجانہ ادا کیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹوں میں اس رقم کی مالیت کا اندازہ کئی ملین یورو لگایا جارہا ہے۔ ہر جانہ وصول کرنے والوں میں سابق قیدی بن یامین محمد بھی شامل ہیں۔ ایک برطانوی عدالت میں فروری میں اس ایتھوپین نژاد برطانوی شہری پر امریکی حراست میں تشدد کا انکشاف کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت کے اعتراض کے باوجود اس معلومات کو عام کردیا گیا تھا۔ اعتراض کرنے والے حکام کا مؤقف تھا کہ یہ معلومات عام ہونے سے امریکہ اور برطانیہ کے مابین خفیہ معلومات کے تبادلے کے امور پر اثر پڑ سکتا ہے۔

Kenneth Clarke Großbritannien Koservativen
برطانوی وزیر انصاف کینتھ کلارکتصویر: AP

حالیہ مفاہمت سے قبل برطانوی حکومت کو اندازہ تھا کہ مقدمہ جاری رکھنے سے پانچ سال میں لگ بھگ 50 ملین پاؤنڈ کا خرچہ آ سکتا ہے۔ یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ عدالتی کارروائی میں کسی موقع پر برطانوی حکومت سے خفیہ نوعیت کی معلومات مانگی جاسکتی تھیں۔

وزیر انصاف کینتھ کلارک نے پارلیمان کو بتایا کہ قیدیوں کے غیر فوجی ’سول‘ ازالے کے لئے مفاہمت یا ڈیل کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ کلارک کے بقول ایک سمجھوتے کے تحت معاملے کی تفصیلات خفیہ رکھی جارہی ہے البتہ یہ واضح ہے کہ ٫٫برطانیہ کی جانب سے‘‘ جرم قبول نہیں کیا گیا ہے اور ’’درخواست دہندہ سابق قیدیوں کی جانب سے‘‘ الزامات واپس نہیں لئے گئے ہیں۔

وزیر خارجہ ولیم ہیگ کا کہنا ہے کہ ہرجانے کی ادائیگی اس لئے بھی ضروری تھی تاکہ قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے معاملے میں برطانوی اہلکاروں پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات شروع کی جاسکے۔ اقوام متحدہ کے صدر دفاتر میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت میں ہیگ نے کہا کہ انکوائری کے آغاز کے لئے ضروری تھا کہ ان مقدمات میں مفاہمت کے عمل کوخوش اسلوبی سے طے کیا جا سکے۔

USA Gefangenenlager Guantanamo Häftling
گوانتا نامو بے جیل کا ایک قیدی، فائل فوٹوتصویر: AP

ہیگ کے مطابق ’’یہ بات آگے نہیں بڑھ سکتی تھی اگر ہم سالوں تک عدالت میں مقدمات کا سامنا کرتے رہیں، اس سے ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی توجہ بھی بٹی رہتی‘‘۔ واضح رہے کہ خارجہ امور سے متعلق برطانوی جاسوس ادارے6 MI کے سربراہ جون ساویرز گزشتہ ماہ کہہ چکے ہیں، ’’ قیدیوں پر کیا گیا تشدد ہر لحاظ سے غیر قانونی تھا اور ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘‘۔ اس بیان کے مطابق تشدد کی ذمہ داری براہ راست امریکی اہلکاروں پر منتقل ہو گئی تھی۔

برطانوی حکومت کا دعوی ہے کہ وہ تشدد کے خلاف ہے۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ ان الزامات کی حقیقت جاننے کے لئے انکوائری کا آغاز کروائیں گے جن میں کہا گیا تھا کہ برطانوی خفیہ سروس کے اہلکار بیرون ملک مشتبہ شدت پسند قیدیوں پر کس طور تشدد میں ملوث رہتے ہیں۔ جولائی میں اپنے ایک خطاب میں کیمرون نے کہا تھا کہ جتنی دیر تک ان الزامات کی گونج رہے گی برطانیہ کی ساکھ متاثر ہوتی رہے گی۔

رپورٹ : شادی خان سیف

ادارت : عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں