1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہر چار ميں سے ايک لڑکی کو آن لائن ہراساں کيا گيا، ايمنسٹی

عاصم سلیم
20 نومبر 2017

ايمنسٹی انٹرنيشنل نے اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ سوشل ميڈيا کمپنياں اور حکومتيں، آن لائن پليٹ فارمز پر عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے ميں ناکام ثابت ہوئی ہيں، قریب ایک چوتھائی عورتوں کو آن لائن ہراساں کیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2nwM3
Symbolbild Cyber Sicherheit
تصویر: Getty Images/L. Neal

اس سلسلے ميں کرائے گئے ايک تازہ سروے ميں دنيا کے آٹھ ملکوں سے چار ہزار لڑکيوں نے شرکت کی۔ تئیس فيصد لڑکيوں کے مطابق ان کی زندگيوں ميں کم از کم ايک مرتبہ انہيں آن لائن ہراساں کيا گيا۔ اس سلسلے ميں امريکا نماياں رہا، جہاں تينتيس فيصد خواتين نے آن لائن ہراساں کيے جانے کی شکايت کی جب کہ ايسے واقعات کی شرح سب سے کم اٹلی ميں نوٹ کی گئی، جہاں سولہ فيصد لڑکيوں کو ایسے تلخ تجربات کا سامنا رہا۔

امريکا اور اٹلی کے علاوہ برطانيہ، اسپين، پولينڈ، سويڈن، ڈنمارک اور نيوزی لينڈ کی اٹھارہ تا پچپن برس کے درميان کی عورتوں و لڑکيوں نے تحقیقی جائزے میں حصہ لیا۔

آن لائن ہراساں کی جانے والی اکتاليس فيصد لڑکيوں کے بقول انہيں ’غير محفوظ‘ ہونے کا احساس ہوا۔ ايمنسٹی ميں ٹيکنالوجی اور انسانی حقوق پر تحقيق کرنے والی ازمينہ ڈھروڈيا کہتی ہيں، ’’انٹرنيٹ عورتوں کے ليے ايک خوف ناک اور زہريلی جگہ ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ يہ ڈھکی چھپی بات نہيں کہ عورتوں سے نفرت اور بدسلوکی جيسے عوامل سوشل ميڈيا پليٹ فارمز پر عام ہيں ليکن موجودہ سروے در اصل يہ دکھاتا ہے کہ ايسے عوامل کے لڑکيوں يا عورتوں کی زندگيوں پر کيا اثرات مرتب ہوتے ہيں۔

 ازمينہ ڈھروڈيا نے مزيد کہا، ’’ذرا سوچيے کہ کوئی ايپليکيشن کھولنے پر آپ کو قتل يا جنسی زيادتی کی دھمکی ملے يا پھر آپ اس خوف ميں مبتلا رہيں کہ آپ کی تصاوير کوئی آپ کی مرضی کے بغير آن لائن شيئر نہ کر دے۔‘‘ ان کے بقول آن لائن ہراساں کیا جانا اس ليے بھی زیادہ نقصان دہ ہے کيونکہ کبھی کبھی صرف ايک ٹوئيٹ يا ايک جملہ صرف ايک ابتداء ہوتی ہے، جس کے بعد نفرت آميز پيغامات کا سلسلہ ہی شروع ہو جاتا ہے۔

ايمنسٹی انٹرنيشنل نے سوشل ميڈيا کمپنيوں پر زور ديا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجيدگی سے ديکھيں اور ان کے تدارک کے لیے معيارات مقرر کريں۔