1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہمارے ملک میں مظاہرین ایسا کرتے تو پولیس گولی مار دیتی‘

شمشیر حیدر
9 جولائی 2017

ہیمبرگ میں جی ٹوئنٹی سمٹ کے دوران مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں کے سلسلے اجلاس کے خاتمے کے بعد بھی جاری رہے۔ ہیمبرگ میں نئے آنے والے تارکین وطن مظاہرین کے جلاؤ گھیراؤ سے پریشان اور پولیس کے رویے پر حیران دکھائی دیے۔

https://p.dw.com/p/2gE37
Hamburg G20 Gipfel - Proteste Schanzenviertel
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Gateau

جرمنی کے بندرگاہی شہر ہیمبرگ میں سات اور آٹھ جولائی کو ایک جانب دنیا کی بیس طاقتور معیشتوں کے سربراہان مذاکرات کر رہے تھے اور اس علاقے سے کچھ ہی دور گزشتہ دو روز کے دوران پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔

جی ٹوئنٹی مخالف مظاہروں سے ہیمبرگ کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا؟

ان مظاہرین میں مختلف طرح کے لوگ شامل تھے۔ کچھ انتہائی بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے تھے، کچھ ماحول سے متعلق طاقتور ممالک، خاص طور پر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف تھے اور ایسے لوگ بھی تھے جو عالمگیریت اور عالمی تجارتی معاہدوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہروں میں شریک کئی نوجوان لڑکے لڑکیوں کی شرٹوں پر ’مہاجرین خوش آمدید‘ بھی درج تھا۔

’’دوزخ میں خوش آمدید‘‘

یہ سب کچھ شہر کے ایک حصے میں ہو رہا تھا لیکن شہر کے دوسری جانب زندگی معمول پر دکھائی دے رہی تھی۔ مرکزی اسٹیشن کے قریب ہی ایک مصری مہاجر ابراہیم علی اور اس کے کچھ ساتھی مظاہرے میں شرکت کے لیے تیاری میں مصرف مرد و زن کو بیئر، فلافل اور دیگر کھانے پینے کی اشیا فروخت کر رہے تھے۔

کئی دنوں سے جاری گہما گہمی ہیمبرگ میں بسنے والے سبھی لوگوں کے لیے بیک وقت خوشی اور پریشانی کا سبب بنی ہوئی تھی۔ انتیس سالہ ابراہیم سن 2011 میں مصر سے ہجرت کر کے جرمنی آیا تھا۔ اسے مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کرنے، دکانیں لوٹنے اور آگ لگانے پر حیرت ہو رہی تھی۔

ابراہیم کہنے لگا، ’’اگر یہ سب کچھ میرے ملک میں ہوتا، تو پولیس مظاہرین پر فائر کھول دیتی۔‘‘ اس کے لیے مظاہرہ کرنے کی وجوہات بھی حیرت کا باعث تھیں، ابراہم کے مطابق، ’’ریاست سب کچھ مہیا کرتی ہے، گھر، ملازمت، تعلیم جیسی سبھی ضروریات۔ اس کے باجود لوگ خوش نہیں ہیں، یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘

شامی مہاجر محمد حلبی اٹھارہ ماہ قبل ہی بطور مہاجر جرمنی آ کر آباد ہوا ہے۔ مظاہروں کے دوران جو کچھ ہو رہا تھا، وہ اس کے لیے بھی ناقابل فہم ہے اور اسی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے حلبی کہنے لگا، ’’یہ لوگ پاگل ہیں، مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا۔ ان لوگوں کا ملک اتنا خوبصورت ہے لیکن یہ اسے تباہ کر رہے ہیں۔‘‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مابین ملاقات میں شام میں جنگ بندی پر اتفاق کی خبروں پر حلبی کا کہنا تھا، ’’یہ ایک مذاق ہے۔ یہ لوگ سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ یہ شام اور مشرق وسطیٰ میں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔‘‘

جی ٹوئنٹی اجلاس میں کونسے فیصلے ہوئے اور کونسے رہ گئے؟