1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم جنس پرستوں کی شادی، سلووینیا کی عوام نے مسترد کردی

عابد حسین21 دسمبر 2015

مشرقی یورپی ملک سلووینیا میں کرائے گئے ایک ریفرنڈم میں ساٹھ فیصد سے زائد رائے دہندگان نے ہم جنسوں کی شادی کو قانونی شکل دینے کی مخالفت کی ہے۔ یہ ریفرنڈم اتوار بیس دسمبر کو کروایا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1HR8H
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Kupljenik

سلووینیا میں ہم جنس پرستوں کو شادی کی قانونی اجازت دینے کی مخالفت کے ریفرنڈم میں بظاہر ووٹوں کی شرح کم رہی ۔ سابق یوگوسلاویہ کی ریاست سلووینیا یورپ میں ایسا پہلا سابق کمیونسٹ ملک ہے، جہاں ہم جنس پرستوں کے مابین شادیوں کے حوالے سے عوامی رائے طلب کی گئی تھی۔ اِس ریفرنڈم کے انعقاد کا فیصلہ مارچ میں حکومت نے کیا تھا اور انعقاد بیس دسمبر کو کیا گیا۔ اِس عوامی رائے نے حکومتی فیصلے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ کیتھولک اکثریتی یورپی ریاست سلووینیا میں قدامت پسند حلقوں کی طرف سے حکومتی فیصلے پر شدید تنقید شروع کر دی گئی تھی۔

یہ امر اہم ہے کہ دنیا کے مختلف اٹھارہ ملکوں میں ہم جنس پرستوں کے درمیان شادیوں کو دستور کے تحت جائز قرار دیا جا چکا ہے۔ ان میں سے تیرہ یورپی ممالک ہیں۔ ہالینڈ وہ پہلا ملک ہے، جس نے سن 2001 میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانون کے تحت جائز قرار دیا تھا۔ اسی قانون کے تحت ایسے جوڑے کو سول تقریبات میں شادی رجسٹر کروانے کے علاوہ بعد میں بچوں کو گود لینے کی بھی اجازت دی گئی۔ دو سال بعد بیلجیم نے بھی ایسا قانون منظور کیا مگر ایسے جوڑوں کو بچے گود لینے کی قانون سازی تین برس بعد میں کی گئی تھی۔

Slowenien Volksabstimmung um Homo-Ehe
سلووینیا میں ہم جنس پرست ریفرنڈم کے نتائج سنتے ہوئےتصویر: picture alliance/AP Photo/D. Bandic

سن 2005 میں سوشلسٹ پارٹی اسپین پر حکومت کر رہی تھی۔ اِس حکومت نے ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی کو قانون کے تحت درست قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں اسکینڈے نیویا کے ملکوں میں ہم جنس پرستی کے تحت زندگی بسر کرنے والے جوڑوں کی شادیوں کو قانون کی چھتری فراہم کی گئی۔ ناروے اور سویڈن نے سن 2009 میں شادی کی اجازت دی۔ آئس لینڈ اور ڈنمارک نے سن 2010 اور سن 2012 میں ایسی شادیوں کے لیے قانون سازی کا عمل مکمل کیا۔ ڈنمارک دنیا کا پہلا ملک تھا، جہان سن 1989 میں ہم جنس پرستوں کے اجتماع کو جائز قرار دیا تھا۔

یہ حسنِ اتفاق ہے کہ رواں برس مئی میں کیتھولک اکثریتی ملک آئرلینڈ میں ہم جنس پرستی کو ریفرنڈم کے ذریعے جائز قرار دیا گیا اور قانونی شکل اکتوبر میں دی گئی۔ دوسری جانب ایک دوسرے کیتھولک ملک سلووینیا کی عوام نے ایسی شادیوں کو مسترد کر دیا ہے۔ دوسرے یورپی ملکوں فرانس، پرتگال، فن لینڈ، لکسمبرگ اور انگلینڈ بشمول ویلز و اسکاٹ لینڈ میں بھی ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو ملکی دساتیر کے تحت جائز قرار دیا جا چکا ہے۔ اسی طرح یورپ کے باہر ارجنٹائن، یوروگوئے، برازیل، کینیڈا، امریکا، میکسیکو، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ میں ہم جنس پرست شادیاں کر سکتے ہیں۔