1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہنڈوراس میں صدارتی انتخابات میں لوبو کامیاب

30 نومبر 2009

ہنڈوراس میں قدامت پسند قومی پارٹی کے رہنما پورفیریو لوبو نے کَل اتوار کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں فتح حاصل کر لی ہے۔ عبوری سرکاری نتائج کے مطابق انہیں52.3 فیصد ووٹ ملے۔

https://p.dw.com/p/KksU
تصویر: picture-alliance/ dpa / AP / DW-Montage

قدامت پسند جماعت کے قریب ترین حریف لبرل پارٹی کے صدارتی امیدوار رہے، جنہیں 35.8 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ ہنڈوراس کے انتخابی ٹریبیونل کے مطابق ان انتخابات میں کُل ووٹروں میں سے 61.3 فیصد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ سن 2005ء میں ہونے والے گزشتہ انتخابات میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ 56 فیصد رہا تھا۔

اپنی انتخابی کامیابی کے بعد پورفیریو لوبو نے کہا کہ وہ ملک میں تمام طبقات کے نمائندہ افراد کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ہنڈوراس کے لئے مستقبل کا واضح اور مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔

Honduras / Porfirio Lobo
لوبو کی پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل ہوئےتصویر: AP

نومنتخب صدر لوبو کے مطابق: "میرا پہلی مصروفیت یہ ہو گی کہ مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھا جائے، اور مل کر سوچا جائے کہ ہمیں وسیع تر ملکی مفاد کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ اس طرح تمام طبقات کے مابین ہم آہنگی پیدا کی جا سکے گی۔ اس سے مضبوط حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ ہم نے جو سوچ رکھا ہے، وہ میرے لئے یا میری جماعت کے لئے نہیں، بلکہ ہنڈوراس کے تمام عوام کے لئے ہے۔‘‘

لبرل پارٹی کے رہنما ایلوین سانتوس نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ انہوں نے مستقبل میں ایک بہتر اپوزیشن کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کا ذکر کیا اور نومنتخب صدر لوبو کو مبارکباد بھی دی۔ سانتوس نے کہا کہ انتخابات صاف اور شفاف تھے، اور ہنڈوراس کے عوام اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں، جسے تمام جماعتوں اور اُن کے رہنماؤں کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہئے۔

سابق صدر مانویل سیلایا نے ان انتخابات میں شریک نہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ اس الیکشن کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں۔ سانتوس نے سیلایا کے انتخابی بائیکاٹ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’انتخابات کا بائیکاٹ کرنا ایک غیر آئینی عمل تھا۔ عوام نے ان کی سوچ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عوام ایسے افراد کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے جو غیر قانونی طرز عمل اپناتے ہیں۔‘‘

2005 میں منعقد ہونے والے انتخابات میں صدر سیلایا برسر اقتدار آئے تھے۔ اس مرتبہ ووٹروں کی شرکت کا تناسب بھی گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مانویل سیلایا کے مخالفین ان انتخابات کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اب جشن منانے میں مصروف ہیں۔

Wahlen Honduras
ملک میں ہم آہنگ سوچ کی ضرورت ہے۔‘‘تصویر: AP

ہنڈوراس کے عبوری حکمران روبیرٹو میشیلیٹی نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ ان انتخابات میں عوام نے واضح کر دیا ہے کہ وہ جمہوریت اور آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی لئے دوسرے ممالک کو اس عوامی فیصلے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

فی الحال امریکہ اور پاناما سمیت چند ہی ایسے ممالک ہیں جنہوں نے حالیہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بہت سے لاطینی امریکی ملک ایسے بھی ہیں جن کا موقف یہ ہے کہ وہ نہ تو ان انتخابات کو مانتے ہیں اور نہ ہی اُن کے نتائج کو۔

عالمی وقت کے مطابق ہنڈوراس میں اتوار کے الیکشن میں پولنگ کا وقت رات دس بجے ختم ہونا تھا، تاہم رائے دہندگان کے رش کی وجہ سے پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹے کا اضافہ کر دیا گیا تھا۔ ہنڈوراس کے مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اس الیکشن میں کئی جگہوں پر پولیس نے سابق صدر سیلایا کے حامیوں کو طاقت کے استعمال سے منتشر کر دیا۔ یہ مظاہرین انتخابات کے انعقاد کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ تاہم میڈیا رپورٹوں میں ان مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں یا کسی بڑے پرتشدد واقعے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے ایک رپورٹر کے مطابق چند مقامات پر پولیس نے سیلایا کے حامی مظاہرین کے خلاف آنسو گیس بھی استعمال کی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انتخابات سے قبل متعدد افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔ ان تنظیموں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ انتخابات کے موقع پر غیر ضروری حد تک زیادہ سیکیورٹی دستے متعین کئے گئے تھے۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں