1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہيٹی ميں ہيضے کی مہلک وبا جس کا علاج بنگلہ ديش ميں آسان ہے

22 نومبر 2010

عالمی ادارہء صحت کا اندازہ ہے کہ ہر سال دنيا ميں کالرا يا ہيضے کے 35 لاکھ کيسز ہوتے ہيں اور ايک لاکھ سے لے کر ايک لاکھ 20 ہزار افراد اس مرض کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/QFAg
ہيٹی ميں کالرا سے مرنے والے دو افراد کی تدفينتصویر: AP

ہيضہ ايک ايسا مرض ہے کہ اگر اُس کا علاج نہ کيا جائے تو وہ چند گھنٹوں کے اندر مريض کو ہلاک کرسکتا ہے، ليکن اس کا علاج بہت سادہ سا ہے ۔ صرف شکر اور نمک کا محلول پلانے سے مريض کو بچايا جا سکتا ہے۔ اس محلول کو جنوبی ايشيا اور پاکستان ميں ORS کا نام ديا جاتا ہے۔

بنگلہ ديش ميں يہ طريقہ بہت عام ہے کہ خواتين کی ساڑھی کو چار پانچ مرتبہ تہہ دے کر پانی اُس ميں سے چھان ليا جا تا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہيضے کا جرثومہ بھی چھن جاتا يا دوسرے لفظوں ميں پينے کے پانی ميں سے فلٹر ہوجاتا ہے۔ بنگلہ ديش کے ايک ڈاکٹر پرديپ بردھان، ہيضے کا علاج بہت اچھی طرح سے جانتے ہيں۔ ڈھاکہ ميں اُن کے ہسپتال ميں ہر سال ہيضے کے تقريباً ايک لاکھ 40 ہزار مريض آتے ہيں ليکن اموات کی تعداد تقريباً صفر ہے۔

Sturm Hanna in Haiti Überschwemmung
ہيٹی ميں سيلابتصویر: AP

ليکن ہيٹی ميں صورتحال کہيں زيادہ پيچيدہ ہے۔ وہاں ہيضے کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد 1250 سے بڑھ چکی ہے۔ ڈاکٹر بردھان نے عالمی ادارہ ء صحت who کی درخواست پر تين ہفتے ہيٹی ميں گذارے ہيں۔ ہيٹی ميں جنوری ميں آنے والے زلزلے ميں دولاکھ 30 ہزار افراد ہلاک  اور ڈيڑھ لاکھ سے زائد بے گھر ہوگئے تھے۔ اس کے بعد لوگوں کو ابھی سنبھلنے کا موقع بھی نہيں ملا تھا کہ TOMAS نامی طوفان نے تباہی مچادی جس کے بعد ہنضہ يا کالرا پھوٹ پڑا جو تيزی سے ہيٹی کے دارالحکومت پورتو پرانس تک پھيل گيا۔

کالرا کو غربت کا مرض کہا جاتا ہے جو جراثيم سے آلودہ گندے پانی سے پھيلتا ہے۔ اس کے مريض کو اسہال يعنی پيچش کی شديد شکايت اور قے ہونے لگتی ہے۔ ہيٹی کی موجودہ نسل کو اس سے کبھی سابقہ نہيں پڑا تھا اور ملک کا خستہ حال نظام صحت بھی اس کا بوجھ برداشت نہيں کرسکتا۔ ڈاکٹر بردھان نے پورتو پرانس سے جرمن خبر ايجنسی  ڈی پی اے  کو ٹيليفون پر بتايا کہ وہاں کے لوگ ہيضے جيسے مرض کے بالکل عادی نہيں اور اس سے نمٹنے کے لئے قطعی تيار نہيں ہيں۔ ہيٹی ميں شايد ايک صدی سے کالرا کا کوئی کيس نہيں ہوا ہے اور لوگوں ميں اس کے خلاف کسی قسم کی مدافعت نہيں ہے۔ اس مرض نے اس سے پہلے اُن کو کبھی چھوا بھی نہيں تھا۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ ہيٹی ميں کالرا کے مزيد پھيلنے کا امکان ہے اوربنگلہ ديش اور پاکستان جيسے ملکوں کے مقابلے ميں، جہاں لوگوں کو ہيضے کا سامنا ہو چکا ہے، ہيٹی ميں اور زيادہ افراد اس مرض ميں مبتلا ہوں گے اور مرنے والوں کی تعداد ميں بھی اضافہ ہوگا۔

ہيٹی ميں زلزلے سے پہلے بھی کالرا کی وبا کے لئے فضا سازگار ہی تھی کيونکہ يہاں پانی کی فراہمی کا نظام محفوظ اور صاف ستھرا نہيں ہے۔ طوفانوں، سيلابوں اور مٹی کے تودے پھسلنے سے حالات اور خراب ہوگئے ہيں۔

ڈاکٹر بردھان دنيا کے کئی براعظموں پر ہيضے سے متعلق اپنے تجربات کی بنياد پر يہ کہتے ہيں کہ ہيضہ ابھی ہيٹی ميں مزيد کئی سال تک رہے گا۔ اسہال پر عالمی ريسرچ سينٹر کے ڈاکٹر بردھان نے کہا کہ اس کی وجہ يہ ہے کہ کالرا پر قابو پانے کے لئے دو چيزيں ضروری ہوتی ہيں: صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کا اچھا اور محفوظ نظام ۔ ہيٹی ميں يہ دونوں ہی نہيں ہيں۔ اس کے علاوہ کالرا سے بچنے کے لئے حفظان صحت اور صفائی ستھرائی کی اچھی عادات بھی ضروری ہيں جن ميں ہاتھ دھونا اور جسم کو اچھی طرح صاف رکھنا شامل ہے۔

کالرا يا ہيضہ سب سے پہلے انيسويں صدی ميں ہندوستان ميں دريائے گنگا کے ڈيلٹا سے دنيا ميں پھيلا۔ اس کے بعد ہيضے کی چھ وباؤں ميں دنيا بھر ميں کئی ملين انسان ہلاک ہوگئے۔ حاليہ ساتويں وبا  سن 1961 ميں جنوبی ايشيا سے شروع ہو کر سن 1971 ميں افريقہ اور سن 1991 ميں امريکی بر اعظم پہنچی ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: کشور مصطفیٰ