1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہٹلر میں سیاسی بصیرت تھی، کرشمہ سازی نہیں: نئی جرمن کتاب

عاطف توقیر7 نومبر 2015

لگتا ہے کہ جرمن مؤرخ پیٹر لونگیرِش کی نئی تصنیف نازی آمر اڈولف ہٹلر کی سوانح عمری ایک متنازعہ کتاب ثابت ہو گی کیوں کہ اس میں ہٹلر کو کرشمہ سازی سے تو محروم لیکن سیاسی بصیرت کا حامل قرار دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1H1dR
Deutschland Nationalsozialismus Ernst Röhm und Adolf Hitler
تصویر: picture-alliance/akg-images

اس نئی سوانح عمری میں کہا گیا ہے کہ ہٹلر ایک مخصوص سیاسی بصیرت رکھتا تھا اور اس کی اس صلاحیت کو اب تک اصل سے کم سمجھا گیا ہے جب کہ دوسری طرف اس دور کے جرمن عوام پر اس کی جذباتی گرفت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔

پیٹر لونگیرِش کی یہ کتاب ’ہٹلر‘ پیر نو نومبر کے روز شائع ہو رہی ہے اور اس 1295 صفحات پر مبنی کتاب میں نازی دور کے پروپیگنڈا سربراہ جوزف گوئبلز کی ڈائریوں اور ہٹلر کی تقاریر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے روئٹرز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں لونگیرِش نے کہا، ’’مجموعی طور پر آپ کے دماغ میں ایک آمر کی تصویر ہے، جس کی گرفت انتہائی زیادہ تھی، جو انفرادی فیصلوں میں ہماری اب تک کی سوچ سے زیادہ شامل تھا۔ میں اس تصویر میں ہٹلر کو بطور شخصیت درمیان میں رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

Peter Longerich
تصویر: dapd

لونگیرِش کی اس نئی تصنیف میں نازی تحریک ابھرنے کے پس پردہ سیاسی اور سماجی ماحول پر زور دیا گیا ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ نازی تحریک کی مقبولیت کی بنیادی وجہ پہلی عالمی جنگ میں جرمنوں کی شکست اور ان پر پڑنے والا مطالبات اور محصولات کا دباؤ بنا۔

تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنوں کو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ وہ ایک مجرم گروہ کے شکنجے میں پھنسے ہوئے تھے اور اس گروہ کا سرغنہ اڈولف ہٹلر تھا، جس کی بظاہر کرشماتی ذات کے جھانسے میں وہ یورپ کو فتح کرنے کی کوشش اور یہودیوں کے قتل عام میں ملوث رہے۔

اپنی اس کتاب میں لندن یونیورسٹی کے پروفیسر اور جرمن مؤرخ لونگیرِش یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک طرف تو ہٹلر کی پالیسیوں کے تباہ کن نتائج نکلے تاہم مخصوص حالات میں اس نے نہایت ذہانت سے بھی کام لیا، ’’اس سوال کی وضاحت کہ وہ کس طرح اس حد تک آگے پہنچ گیا تھا، ابھی جواب طلب ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ وہ مخصوص صورت حال کو اپنے مفاد اور مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر سکتا تھا۔‘‘

پیٹر لونگیرِش کے مطابق ہٹلر کی نسلی منافرت کی پالیسیاں، جن کے نتیجے میں کم از کم چھ ملین یہودی مارے گئے، زیادہ تر اس کی سیاسی موقع پرستی کی آئینہ دار تھیں۔ لونگیرِش کا خیال ہےکہ ہٹلر اپنی ابتدائی عمر میں بہت زیادہ یہودی مخالف نہیں تھا، ’’سن 1919 تا 1920 اس نے سوچا کہ وہ سیاست میں صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے کہ وہ یہودیوں کے خلاف نفرت کا پرچار کرے۔‘‘ تاہم لونگیرِش کہتے ہیں کہ ہٹلر کو اسے نکتے کو اپنی سیاست کا مرکز بنانے میں ایک عشرہ لگا۔