1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیڈ ماسٹر کی بے عزتی پر اساتذہ کا بڑا مظاہرہ

عاطف بلوچ19 مئی 2016

بنگلہ دیش میں ہزاروں اساتذہ نے ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو زودوکوب کا نشانہ بنانے اور انہیں کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کرانے کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔ توہین اسلام کا غلط الزام عائد کرنے پر ایک ممبرپارلیمان نے انہیں یہ سزا دی تھی۔

https://p.dw.com/p/1IqZf
Bangladesch Proteste gegen den Mord an den Blogger Ananta Bijoy Das
تصویر: picture-alliance//NurPhoto/Z. H. Chowdhury

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ڈھاکا سے موصول ہونے والی اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ انیس مئی بروز جمعرات بنگلہ دیش کے متعدد اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے اپوزیشن ممبر پارلیمان سلیم عثمان کے خلاف مظاہرہ کیا۔

مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کے ایک اسکول کے ہندو ہیڈ ماسٹر شمائل کانتی بھکتہ کے بقول وہ اسلام کی توہین کے مرتکب نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان کی صفائی کے باوجود انہیں لوگوں کے سامنے بے عزت کیا گیا۔

گزشتہ ہفتے ڈھاکا کے نواح میں ہی ان کی توہین کرنے کا یہ واقعہ پیش آیا تھا، جس کی ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی شائع کی گئی۔ سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کی وجہ سے یہ معاملہ اب زیادہ توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کے سیاستدان سلیم عثمان ہندو بزرگ استاد شمائل کانتی کو بے شمار لوگوں کے سامنے ہی کان پکڑ کر اٹھنے اور بیٹھنے کو کہتے ہیں اور ساتھ ہی ان سے ہاتھ جوڑ کے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پر اس ویڈیو کو شائع کیے جانے کے بعد کئی حلقوں نے اس افسوسناک واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جمعرات کے دن بنگلہ دیش میں کیے گئے مظاہرے میں بھی اساتذہ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اس واقعے کی چھان بین کرائے اور سلیم عثمان کے خلاف مؤثر کارروائی کرے۔

ڈھاکا میں جانگیر نگر یونیورسٹی کے پروفیسر انعام خان نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ممبر پارلیمان نے قوم کے ایک معمار استاد کی ہی نہیں بلکہ پوری قوم کی بے عزتی کی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ شاید اس ممبر پارلیمان کو قانون دان اور قانون ساز کے مابین تفریق کا علم نہیں ہے۔

ڈھاکا یونیورسٹی کی نائب چانسلر نسرین احمد کے مطابق بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں ہونے والے ان مظاہروں میں لوگ مطالبہ کر رہے ہیں اس واقعے کی مکمل طور پر تحقیقات ہونا چاہییں۔ اس تناظر میں ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ #Sorrysir کے نام سے ایک مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔

دوسری طرف وزیر تعلیم نورالاسلام نے جعمرات کے دن ہی شمائل کانتی بھکتہ کو ان کے عہدے پر بحال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس اسکول کی گورننگ باڈی کو تحلیل کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھکتہ پر یہ الزام عائد کرنے کے بعد اس گورننگ باڈی نے انہیں برطرف کر دیا تھا۔

نور الاسلام نے اس واقعے کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہیڈ ماسٹر کے خلاف ناانصافی ہوئی ہے۔ اسی اثناء اپوزیشن پارٹی جاتیہ کے ممبر سلیم عثمان نے اس واقعے پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں موجود بہت سے لوگوں نے ان کے اس فیصلے کی حمایت کی تھی۔

عثمان نے اس واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’میں معافی کیوں مانگوں۔ پانچ ہزار مشتعل افراد میرے گرد جمع ہو کر بھکتہ کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ میں نے تو اصل میں بھکتہ کو مشتعل افراد سے بچایا ہے۔‘‘ یہ امر اہم ہے کہ حالیہ عرصے میں بنگلہ دیش میں انتہا پسندی میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے، جہاں کئی سکیولر بلاگرز اور دانشوروں کو ہلاک بھی کیا جا چکا ہے۔