1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن میں سعودی حملوں کے خلاف ایک بڑی ریلی

شامل شمس20 اگست 2016

یمنی دارالحکومت صنعاء میں ہزاروں کی تعداد میں شیعہ باغیوں اور سابق صدر صالح کے حامیوں نے سعودی حملوں کی مذمت میں ایک بڑی ریلی نکالی۔ یہ گزشتہ کئی برسوں میں صدر صالح کے حامیوں کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔

https://p.dw.com/p/1JmFs
تصویر: Reuters/K.Abdullah

ہفتے کے روز ہزاروں کی تعداد میں افراد نے یمن کے دارالحکومت صنعاء میں شیعہ حوثی باغیوں اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کی حمایت میں ریلی نکالی۔ گزشتہ ماہ صالح اور باغیوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی حکومت اور اقوام متحدہ نے مسترد کر دیا تھا۔

حوثیوں نے سن دو ہزار چودہ میں صنعاء پر قبضہ کیا تھا۔ گزشتہ برس مارچ سے سعودی عرب اور امریکی حمایت یافتہ اتحاد باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔

ہفتے ہی کے روز سعودی عسکری اتحاد نے صنعاء میں صدارتی محل پر فضائی بم باری بھی کی۔ ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی درست تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ حوثیوں نے نجران کے علاقے میں ایک میزائل سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک سعودی شہری ہلاک جب کہ پانچ سعودی اور ایک پاکستانی زخمی ہوئے۔

امن معاہدے کی ناکامی

چند ہفتوں قبل امید پیدا ہو چلی تھی کہ یمن میں اقوام متحدہ کی امن کوششیں کامیاب ہو پائیں گی۔

گزشتہ ماہ یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت نے بتایا تھا کہ اس نے ملک میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کا تجویز کردہ امن معاہدہ قبول کر لیا ہے۔ باغیوں کی جانب سے اس معاہدے کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔

سترہ جولائی کو اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب اسمٰعیل شیخ نے یمن میں برسر پیکار متحارب فریقین پر زور دیا تھا کہ وہ مذاکرات کو سنجیدگی سے لیں۔

اقوام متحدہ کے مندوب کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں زور اس بات پر تھا کہ یمن کے شیعہ حوثی باغی اور صدر منصور ہادی کے نمائندے جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل طور پر عمل کریں۔

یمن میں گیارہ اپریل سے جنگ بندی کا معاہدہ نافذ ہے تاہم فریقین اس کی کثرت سے خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں۔

پراکسی وار

حوثی باغی یمن میں اب بھی طاقت ور ہیں حالاں کہ سعودی عرب اور اُس کے اتحادی یمن پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان حملوں کی ابتدا گزشتہ برس چھبیس مارچ کو ہوئی تھی۔ اس فضائی کارروائی میں سعودی عرب کو اپنے خلیجی اتحادیوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

امریکا اور برطانیہ بھی سعودی عرب کی کارروائی کی تائید کر چکے ہیں۔ ریاض کے مطابق ان حملوں کا مقصد یمن میں ایران نواز شیعہ حوثی باغیوں کی ملک میں بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو روکنا اور ملک پر صدر منصور ہادی کا کنٹرول بحال کرانا ہے۔

یمن کی اس جنگ کو خطے کے بعض دیگر ممالک کی طرح ایران اور سعودی عرب کی علاقائی بالادستی کی جنگ یا ’پراکسی وار‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔

امریکی مشاورت

امریکی بحریہ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں بتایا کہ یمن میں سعودی اتحاد کے لیے متعین امریکی خفیہ مشیروں کی تعداد کم کر دی گئی ہے۔ امریکی بحریہ کے ففتھ فلیٹ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یمن میں سعودی اتحاد کی جانب سے خفیہ معلومات اور مشاورت کی درخواستوں میں کمی واقع ہو چکی ہے اور اِسی تناظر میں اسٹاف کم کیا گیا ہے۔ ترجمان کے مطابق یمن میں امریکی اہل کاروں کی تعداد پانچ سے بھی کم ہو گئی ہے اور اُن کا کردار صرف مشاورت تک محدود ہے۔

واضح رہے کہ یمن میں سعودی اتحاد کی عسکری کارروائیوں کے عروج پر امریکی خفیہ مشیروں کی تعداد پینتالیس تک پہنچ گئی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید