1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن میں شدید لڑائی اور ثالثی کوششیں جاری

3 جون 2011

جمعرات 2 جون کو یمنی دارالحکومت صنعاء میں صدر علی عبد اللہ صالح کی حامی سکیورٹی فورسز اور قبائلی جنگجوؤں کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/11TL4
صنعاء: عمارتوں سے اٹھتے شعلےتصویر: dapd

صرف گزشتہ دَس روز کے اندر اندر کم از کم 135 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جمعرات کو شروع ہونے والی شدید جھڑپیں رات دیر گئے تک جاری رہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے جان بوجھ کر مظاہرین پر فائرنگ کی جاتی رہی۔

ملکی ٹیلی وژن پر یمنی ایئر ویز کی عمارت سے بلند ہوتے ہوئے شعلے دکھائے جاتے رہے اور قبائلیوں پر اس عمارت کو آگ لگانے کا الزام لگایا جاتا رہا۔ ٹی وی چینل الجزیرہ کے مطابق یہ آگ اُس وقت لگی، جب سکیورٹی فورسز نے اِس کے قریب ایک قبائلی لیڈر کے گھر کو نشانہ بنایا۔

یمنی وزارت دفاع کے مطابق ایک وزارت کی عمارت کو یمنی قبائلیوں کے قبضے سے چھڑانے کے لیے سکیورٹی فورسز کے خصوصی دستے تعینات کیے گئے تھے۔ قومی ٹی وی چینل پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے خالی کروائی جانے والی سرکاری عمارات دکھائی گئی ہیں، جو بڑی حد تک تباہ ہو چکی ہیں۔ اِسی دوران ایئر پورٹ کے قریب ہونے والی لڑائی کے باعث کچھ دیر کے لیے پروازوں کی آمد و رفت بھی رکی رہی۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے جان بوجھ کر مظاہرین پر فائرنگ کی جاتی رہی
عینی شاہدین کیمطابق سکیورٹی فورسز کی جانب سے جان بوجھ کر مظاہرین پر فائرنگ کی جاتی رہیتصویر: dapd

دریں اثناء 33 سال سے برسرِ اقتدار چلے آ رہے صدر صالح کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے امریکہ نے بھی اپنی کوششیں تیز تر کر دی ہیں۔ دہشت گردی کے انسداد کے سلسلے میں امریکی صدر باراک اوباما کے سرکردہ مشیر جون برینن اسی سلسلے میں سعودی عرب میں اپنے مذاکرات مکمل کرنے کے بعد جمعرات دو جون سے متحدہ عرب امارات پہنچ چکے ہیں۔

اُدھر جمعرات کو ہی دیر گئے خلیجی تعاون کونسل نے، جس کے مفاہمتی منصوبے پر دستخط کرنے سے صدر صالح اب تک انکار کرتے چلے آ رہے ہیں، کہا ہے کہ وہ یمن کے داخلی تنازعے کے پُر امن حل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔

23 ملین کی آبادی والے خطّے کے غریب ترین ملک یمن میں، جسے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا بھی ایک اہم گڑھ تصور کیا جاتا ہے، صدر صالح کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ اس سال جنوری میں شروع ہوا تھا۔ صدر صالح مسلسل یہ دلیل دیتے چلے آ رہے ہیں کہ اُن کے مستعفی ہونے سے یمن میں دہشت گردوں کو غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ تاہم مستعفی ہونے سے اُن کا مسلسل انکار اس ملک کو، جہاں ملازمتیں بھی نہیں ہیں اور خوراک کی بھی قلت ہے، تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔ یمن کی 40 فیصد آبادی دو ڈالر روزانہ سے بھی کم میں گزارا کرنے پر مجبور ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں