1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن کے پندرہ ملین شہری، بھوک کے خطرے کا شکار

بینش جاوید28 جنوری 2016

اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے خوارک و ذراعت ( ایف اے او) کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یمن کی قریب نصف آبادی تک خوارک کی امداد نہیں پہنچ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HlLc
Sanaa Jemen Luftangriff Saudi Arabien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H.Mohammed

بحران زدہ ملک یمن، ایران اور سعودی عرب کے مابین مفادات کی جنگ کے بیچ پھنسا ہوا ملک ہے۔ یمن کے حوثی شیعہ باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے جبکہ یمن کے صدر عبد منصور ہادی کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے جس کی قیادت میں اتحادی فورسز کی جانب سے یمن میں شیعہ باغیوں پر فضائی حملے بھی کیے جا رہے ہیں۔

ایف اے او کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ،’’ گزشتہ برس جون کی نسبت اس سال ایسے افراد میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے جنہیں ضروری خوارک میسر نہیں ہے۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 2.3 ملین افراد اندرون ملک نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور یہ تعداد ایک برس قبل کی تعداد سے 400 فیصد زیادہ ہے۔

یمن میں ایف اے او کے نائب سربراہ اور ایمرجنسی رسپانس ٹیم کے لیڈر، ایٹینے پیٹر شمٹ نے ایک بیان میں کہا،’’یہ اعداد و شمار ایک ایسے بحران کی نشاندہی کرتے ہیں جسے بھولا جا چکا ہے۔ یہ ایک ایسا بحران ہے جس میں کئی لاکھ افراد کو جلد از جلد امداد فراہم کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

صحرائی ملک یمن میں صرف 4 فیصد زمین قابل کاشت ہے اور یہ ملک اپنی 90 فیصد غذائی ضروریات درآمدات سے پوری کرتا ہے۔ ایف اے او کے بیان میں اس حوالے سے کہا گیا ہے، ’’حالیہ تنازعے نے یمن کے ذرعی شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔‘‘

گزشتہ برس نومبر میں یمن میں آنے والے دو سائیکلونوں یا طوفانوں نے مچھیروں کے روزگار کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ ایف اے او کے مطابق 2016ء میں یمن کی غذائی ضروریات کی کل لاگت 25 ملین ڈالر تک ہو گی۔

دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار یمن میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی سب سے فعال اور خطرناک شاخیں سر کردہ ہیں۔