1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن کے کئی علاقوں میں خوراک کی قلّت، قحط کا خطرہ پیدا ہو گیا

امجد علی14 جولائی 2016

یمن کی آدھی آبادی کو غذائی قلّت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک میں خانہ جنگی کے باعث درآمد کنندگان کو بیرونی ممالک سے اَشیائے خوراک منگوانے میں مشکل پیش آ رہی ہے اور ملک کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JOsi
Jemen Krise Versorgung der Zivilisten in Sanaa
اٹھائیس ملین کی آبادی والے یمن میں اکیس ملین شہری کسی نہ کسی شکل میں انسانی امداد پر انحصار کرنے پر مجبور ہیںتصویر: Reuters/M. al-Sayaghi

قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔

یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔ مہنگائی اتنی ہے کہ آٹے کی چالیس کلوگرام کی ایک بوری پچیس ڈالر کے برابر رقم میں فروخت ہو رہی ہے۔

بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اب یہ بینک ایسے لیٹرز آف کریڈٹ دینے سے انکار کر رہے ہیں، جن میں یہ ضمانت دی جاتی ہے کہ اَشیائے خوراک بیچنے والوں کو وقت پر ادائیگی ہو جائے گی۔

یمنی بینکوں میں مختلف غیر ملکی کرنسیوں میں تقریباً دو سو ساٹھ ملین ڈالر کی رقم پھنسی ہوئی ہے اور یہ رقم جزوی طور پر اِس لیے بھی بیرونی دنیا کو منتقل نہیں کی جا سکتی کیونکہ مغربی بینکوں کے ساتھ روابط منقطع ہو چکے ہیں۔ مستقبل قریب میں یمنی بینکوں کے حالات میں بہتری کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔

Jemen Ankunft Lebensmittel aus Russland
نومبر 2015ء: ایک روسی طیارہ صنعاء کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ہنگامی امدادی سامان اُتار رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab

آج کل یمنی تاجر یمن میں بینکوں سے رقوم نکلواتے ہیں اور پھر انہیں کسی طرح بذریعہ ہوائی جہاز دوسرے ملکوں میں بھجوانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس طریقے پر عملدرآمد میں بھی مشکلات حائل ہیں کیونکہ فائر بندی کے باوجود جھڑپیں جاری ہیں۔

سعودی قیادت میں سرگرم اتحاد نے اس سال کے اوائل میں ایک سو ملین ڈالر بذریعہ ہوائی جہاز بحرین منتقل کرنے کی اجازت دی تھی۔ پھر یہ رقم یمن کے ایک بین الاقوامی بینک کی سعودی عرب میں واقع شاخ کے ایک اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی۔ کئی مہینوں میں مکمل ہونےوالا یہ طریقہ مہنگا بھی پڑا تھا اور رقم لے کر جانے والے طیارے کے لیے ہی تقریباً چھ لاکھ ڈالر کا کرایہ ادا کیا جانا پڑا تھا۔

اٹھائیس ملین کی آبادی والے یمن میں اکیس ملین شہری کسی نہ کسی شکل میں انسانی امداد پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید