1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی بینکوں کا ڈیٹا : امریکی دسترس میں

رپورٹ: امجد علی ۔ ادارت، عابد حسین28 جولائی 2009

جرمن سیاستدانوں کی زبردست تنقید کے باوجود یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے اپنے برسلز منعقدہ اجلاس میں اُس سمجھوتے کی راہ ہموار کر دی، جس کے نتیجے میں امریکہ کو یورپی بینکوں کے اعدادوشمار استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔

https://p.dw.com/p/IyTI
یورپی بینکوں کا ڈیٹا اور امریکی خفیہ ادارے کا اہلکار : ایک علامتی تصویرتصویر: DW-Montage/picture-alliance/dpa

یورپی بینکوں کے ڈیٹا تک امریکی سیکیورٹی اداروں کی رسائی کے مخالفین کی تنقید بجا سہی لیکن اُنہوں نے بہت دیر کر دی ہے۔ گیارہ ستمبر سن 2001ء کے دہشت پسندانہ حملوں کے بعد سے ہی یورپی بینکوں کے رقوم سے منتقلی کا حساس ڈیٹا امریکی دسترس میں چلا آ رہا ہے۔ یہ کام مالیاتی خدمات فراہم کرنے والے ادارے سوفٹ کے امریکہ میں موجود ایک کمپیوٹر کی وجہ سے ممکن ہوتا چلا آ رہا ہے۔

اس کمپیوٹر میں آٹھ ہزار بینکوں کے رقوم کی منتقلی سے متعلق اعدادوشمار محفوظ ہیں۔ یہ صورتِ حال اعدودوشمار کے تحفظ کے علمبرداروں کی آنکھوں میں طویل عرصے سے کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ جرمن سیاسی جماعت سی ایس یو یعنی کرسچین سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن مارکُوس فَیربر بھی اِس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں انسان کو وہ سب کچھ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، جو انسان بخوشی کرنا چاہتا ہے۔

EU Council in Brüssel
برسلز منعقدہ یورپی وزرائے خارجہ کا اجلاستصویر: AP

سن 2006ء میں نیویارک ٹائمز نے خبر دی تھی کہ امریکی حکام درپردہ بنیادی طور پر بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے ادارے سوفٹ کے کمپیوٹر میں موجود اعدادوشمار سے استفادہ کر رہے ہیں۔ تب ڈیٹا کے تحفظ سے متعلقہ اداروں نے سوفٹ پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ اِس دباؤ کے باعث سوفٹ نے اب اپنا مرکزی کمپیوٹر امریکہ سے یورپ منتقل کرنے اور سوئٹزرلینڈ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم امریکی حکام یورپ میں بھی ان اعدادوشمار تک رسائی چاہتے ہیں۔

یورپی ممالک اصولی طور پر اِس حق میں ہیں اور اِسی لئے کل پیر کو یورپی وزرائے خارجہ نے یورپی کمیشن کو امریکہ کے ساتھ اِس طرح کے ایک باقاعدہ سمجھوتے پر مذاکرات شروع کرنے کی اجازت دے دی۔ ابتدائی طور پر یہ سمجھوتہ ایک سال تک کے لئے ہو گا۔

جہاں کچھ حلقے دہشت گردی کی روک تھام کے سلسلے میں اِن اعدادوشمار کو مفید قرار دیتے ہیں، وہاں کچھ دیگر کے خیال میں اِس سے اصل مقصد محدود پیمانے پر ہی حاصل ہو سکا ہے۔ دہشت گردی کے امور کے جرمن ماہر اَیلمار تھے ویسن کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے ڈھانچوں کو جانچنے کے لئے یہ ڈیٹا بلاشبہ مفید ہیں۔ لیکن گذشتہ چند برسوں کے دوران محض ایک واقعہ ایسا تھا، جس میں اِن اعدادوشمار کی وجہ سے ایک دہشت پسندانہ حملے کو ناکام بنایا جا سکا۔ باقی تمام معاملات میں محض دہشت گرد تنظیموں کے ڈھانچوں کے بارے میں مزید معلومات ملیں۔ ایسے میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا حفظِ ماتقدم کے طور پر تمام بینک ڈیٹا فراہم کر دیا جانا چاہیے۔

امورِ انصاف کے یورپی کمشنر ژاک بارو کے مطابق اِس مجوزہ سمجھوتے کا مقصد یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں کہیں کوئی سقم نہ رہ جائے۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ یہ سمجھوتہ امریکہ کے لئے کوئی بلینک چیک نہیں ہو گا اور امریکہ سخت قانونی نگرانی ہی کے تحت اِن ڈیٹا سے استفادہ کر سکے گا۔