1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی سرحدیں بند اور ترکی کا بحران، اسمگلروں کی چاندی

عاطف توقیر7 اگست 2016

ایک ایسے موقع پر جب ترکی اندرونی طور پر ایک بحران کا شکار ہے اور یورپی ممالک نے اپنی سرحدیں بند کر رکھی ہیں، انسانوں کے اسمگلروں کو امید ہے کہ وہ اس موسم گرما میں مہاجرین سے خاصا پیسہ اینٹھ لیں گے۔

https://p.dw.com/p/1JcuF
Griechenland Leben im Flüchtlingslager in Vasilika
تصویر: picture alliance/NurPhoto/N. Economou

پولیس کا کہنا ہے کہ انسانوں کے اسمگلر نہایت ہوشیاری سے کام کر رہے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اسمگلر موٹرسائیکلوں کے ذریعے ان مہاجرین کو سرحدیں عبور کروا رہے ہیں، جب کہ ان کے پاس سرحدوں کی نگرانی کے نقشے بھی ہیں اور ان مقامات کی مفصل معلومات بھی جہاں نگرانی نہیں ہو پا رہی۔ اس کے علاوہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کہاں پولیس کے مخبر موجود نہیں ہیں اور کس طرح یونان میں کئی ماہ سے پھنسے مہاجرین کو بھاری رقوم کے عوض بلقان ریاستوں کی بند سرحدوں کو عبور کروا کر آگے بھیجا جا سکتا ہے۔

اسمگلروں کے بڑھتے ہوئے معاوضے اور کامیابی کے کم سے کم تر ہوتے امکانات کے باوجود مہاجرین کا ان گروہوں سے رابطہ اور بھروسہ کم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے 22سالہ سورہ رحمانی اپنے والدہ کے ہم راہ یونان پہنچے تھے، مگر بلقان ریاستوں کی سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے وہیں پھنس کر رہ گئے۔ ان کی والدہ کی صحت خراب تھی اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی جمع پونجی ایسے ہی اسمگلروں کے سپرد کر دی۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس نوجوان نے ان اسمگلروں کو ڈھائی ہزار یورو ادا کرنے پر اتفاق کیا، جس کے بدلے اسے اس کی والدہ کے ہم راہ یونان سے مقدونیہ کے ذریعے سویڈن پہنچانے کا معاملہ طے پایا، مگر اس نے ابھی کچھ میل ہی کا فاصلہ طے کیا تھا کہ پولیس نے انہیں واپس لوٹا دیا۔

رحمانی نے ایسوی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا، ’’ہمیں سویڈن پہنچنا ہے۔ ہمارا پورا خاندان وہیں ہے۔ ہمارا افغانستان میں اب کوئی نہیں۔‘‘

Griechenland Leben im Flüchtlingslager in Vasilika
یونان میں سینکڑوں مہاجرین پھنسے ہوئے ہیںتصویر: picture alliance/NurPhoto/N. Economou

رحمانی اس وقت شمالی یونان میں ایک خیمہ بستی میں مقیم ہیں اور انہیں امید ہے کہ ایک روز وہ سویڈن پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

یونان سے بلقان ریاستوں کے ذریعے گزشتہ برس ایک ملین سے زائد مہاجرین مغربی اور شمالی یورپ پہنچے تھے۔ مارچ میں تاہم بلقان ریاستوں نے اپنی سرحدیں مہاجرین کے لیے بند کر دیں اور ہزاروں افراد یونان میں پھنس کر رہے گئے۔ یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والی ڈیل کے بعد ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، تاہم ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن اور یورپ کے ساتھ ترکی کے خراب ہوتے تعلقات کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ یہ ڈیل ختم ہو سکتی ہے اور مہاجرین ایک مرتبہ پھر اسے راستے سے یورپ پہنچنا شروع ہو سکتے ہیں۔ تاہم بلقان ریاستوں کا موقف ہے کہ وہ کسی بھی صورت اپنی سرحدیں مہاجرین کے لیے نہیں کھولیں گے اور ایسی صورت میں انسانوں کے اسمگلر مہاجرین سے بڑی بڑی رقوم اینٹھنے کے لیے پر تولتے دکھائی دیتے ہیں۔