1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی مسلمانوں کے نزدیک امتیازی سلوک کے باوجود یورپ گھر جیسا

صائمہ حیدر
22 ستمبر 2017

ایک نئے جائزےکے مطابق یورپی ممالک میں ضم ہونے کے باوجود بیشتر تارکین وطن مسلمانوں کو امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود انہیں یورپ میں اپنے گھر جیسا احساس ملتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2kVzA
Ramadan in Sizilien
سروے میں قریب چھہتر فیصد شرکاء کا کہنا تھا کہ وہ جن ملکوں میں رہتے ہیں اُن سے خود کو جڑا ہوا محسوس کرتے ہیںتصویر: DW/D.Cupolo

بنیادی حقوق کے لیے یورپی یونین کے ادارے ’ایف آر اے‘ کی جانب سے شائع کیے گئے ایک تازہ ترین جائزے کے مطابق یورپی یونین ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ایسے امتیازی رویوں کے حوالے سے اعداد و شمار تاہم ہر یورپی ملک کے لیے مختلف ہیں۔

ایف آر اے کی نئی تحقیق میں ’یورپی یونین میں اقلیتیں اور امتیازی سلوک‘ کے عنوان سے دوسرے سروے میں ریسرچرز نے یورپی بلاک کے پندرہ ممالک میں 10,527 افراد سے سوالنامے کے جوابات حاصل کیے گئے۔ ان ممالک میں جرمنی، سویڈن اور اٹلی بھی شامل تھے۔

سروے میں قریب چھہتر فیصد شرکاء کا کہنا تھا کہ وہ جن ملکوں میں رہتے ہیں اُن سے خود کو جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ بہت ساروں نے ملکی اداروں مثلاﹰ پولیس اور پارلیمان پر گہرے اعتماد کا اظہار کیا۔

اس حوالے سے یورپین کمیشن کے پہلے نائب صدر فرانس ٹِمر مانز کا کہنا تھا،’’  یورپ میں رہنے والی مسلم برادریوں کا یہاں کے اداروں اور قانون کی حکمرانی پر اعتماد بہت حوصلہ افزا ہے۔ باوجود اس کے انہیں تعصب کے انفرادی چیلجز سے نمٹنا پڑتا ہے۔‘‘

Frankreich Muslime Streit um Kopftuchverbot
تارکین وطن کو ملازمت اور رہائش کی تلاش، کام اور اساتذہ کے ساتھ رابطوں میں امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہےتصویر: AP

'ایف آر اے‘ کا یہ تحقیقی جائزہ پہلی اور دوسری نسل کے تارکین وطن پر مرکوز رکھا گیا تھا۔ مثال کے طور پر وہ لوگ جو کسی اور ملک سے نقل مکانی کر کے جرمنی آئے اور پھر اُ ن کے بچے جو جرمنی میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ وہ لوگ جو اس سروے میں شامل رہے، اُن کا تعلق ترکی، جنوبی ایشیا، شمالی افریقہ اور سب سہارا افریقہ سے تھا۔

سروے میں شامل افراد کی اکثریت کا کہنا تھا کہ وہ جن ملکوں میں رہائش پذیر ہیں وہاں انہیں ایسا ہی لگتا ہے جیسے وہ اپنے آبائی وطن میں محسوس کرتے تھے۔ صرف دو فیصد شرکاء ایسے تھے جنہوں نے اپنے رہائش کے ممالک سے کسی قسم کا کوئی ربط محسوس کرنے سے انکار کیا۔

بنیادی حقوق کے لیے یورپی یونین کے ادارے کے تازہ مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ چالیس فیصد افراد کے مطابق انہیں گزشتہ پانچ سالوں میں تعصب پر مبنی رویوں کا سامنا ہوا۔ جن مقامات پر ان تارکین وطن کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا اُن میں ملازمت اور رہائش کی تلاش، کام اور اساتذہ کے ساتھ رابطے شامل ہیں۔