1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین الجھن دور کرے، بن علی یلدرم

عدنان اسحاق22 مئی 2016

ترکی میں حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے بن علی یلدرم کو نیا پارٹی سربراہ منتخب کر لیا ہے۔ اس طرح اب وہ ملک کے نئے وزیراعظم بھی ہوں گے۔ یلدرم کا شمار صدر ایردوآن کے قریبی رفقاء میں ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IsaR
تصویر: picture alliance/AP Images/R. Ozel

ترکی کی حکمران جماعت اے کے پی میں پارٹی کا چیئرمین ہی ملک کا سربراہ حکومت بھی ہوتا ہے۔ ترکی کے متوقع وزیر اعظم بن علی یلدرم نے آج اتوار کو اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ منصب سنبھالنے کے بعد صدر رجب طیب ایردوآن کی خواہش کے مطابق صدارتی نظام کو لاگو کرنے کے لیے کوششیں کریں گے۔ یاد رہے کہ ترکی کے متعدد حلقے ملک میں صدارتی نظام کی مخالفت کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے یہ نظام متنازعہ بھی بن چکا ہے۔

یلدرم نے اے کے پی پارٹی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ ترکی کو ایک نئے آئین کی ضرورت ہے۔ کیا آپ صدارتی نظام کے لیے تیار ہیں؟ ان کے سوال کا جواب وہاں پر موجود پارٹی کارکنوں نے تالیاں بجا کر دیا۔

Türkei AKP-Kongress
تصویر: Reuters/U. Bektas

ترکی کے موجودہ آئین میں صدر کے اختیارات محدود ہیں تاہم یلدرم نے کہا، ’’2014ء میں ایردوآن کو عوام نے براہ راست صدر منتخب کیا تھا۔ وہ اس طرح سربراہ مملکت بننے والے پہلے ترک صدر ہيں۔ اس کے بعد سے سب کچھ بدل گیا ہے۔‘‘ انہوں نے اس دوران مزید کہا کہ وہ ملک میں صدارتی اور پارلمیانی نظام کے بارے میں پھیلی ہوئی الجھن کو جلد سے جلد ختم کرنا چاہتے ہیں، ’’اس کے لیے صحیح راستہ آئین میں تبدیلی ہی ہے۔‘‘

اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے یلدرم اور ایردوآن کو کم از کم ساٹھ فیصد پارلیمانی ارکان کی حمایت درکار ہو گی، جس کے بعد اس مسئلے پر ایک ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ تاہم پچھتر فیصد حمایت کی صورت ميں آئین میں ترامیم کو براہ راست منظور کرایا جا سکے گا۔ تاہم حکمران جماعت اے کے پی کو ابھی اتنی اکثریت حاصل نہیں۔ ماہرین کے مطابق اے کے پی کچھ ارکان کو نا اہل قرار دے کر یا پھر نئے انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے اسے حل کرنے کی کوشش کرے گی۔

دوسری جانب بن علی یلدرم نے یورپی یونین سے مطالبہ کہ مہاجرین کے پالیسی کے حوالے سے پھیلی ہوئی غیر یقینی اور افراتفری کی صورتحال کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی رکنیت سے قطع نظر ترکی اپنے ہاں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر کرنے اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے کام کرتا رہے گا۔