1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین اور بھارت کے درمیان باہمی تجارت

افتخار گیلانی، نئی دہلی6 مارچ 2009

یورپی یونین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ بھارت کے 21 فیصد مرچینڈائز ایکسپورٹ یورپی یونین کے رکن ملکوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ 2000 سے 2007 کے درمیان دونوں کے درمیان تجارت بڑھ کر دوگنی ہوگئی۔

https://p.dw.com/p/H78z
بھارت اور یورپی ممالک کے درمیان تجارتی حجم میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہےتصویر: AP

ایک جامع اقتصادی پارٹنرشپ معاہدہ(CEPA) یا آزاد تجارتی معاہدہ ہوجانے کے بعد 2015 تک یہ 572 بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ لیکن یورپی یونین کے ممبران پارلیمنٹ نے یورپی پارلیمنٹ میں ایک تجویز پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے ساتھ کسی بھی طرح کا تجارتی معاہدہ کرنے سے پہلے بعض سماجی امور اور جمہوریت جیسے موضوعات کو مدنظر رکھا جانا چاہئے۔ اس تجویز میں جن امور کا ذکر کیا گیا ہے ان میں مذہبی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم، بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اجتماعی قبریں، بچوں کی مزدوری اور ماحولیات جیسے موضوعات شامل ہیں۔

یورپی پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ کرنے سے پہلے ان امور کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن بھارت نے اس طرح کے شرائط پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غیر تجارتی امور کو تجارتی مذاکرات کاحصہ بنانا درست نہیں ہے۔ بھارت کی تجارتی انجموں نے بھی ایسی شرطوں پر ناراضگی ظاہر کی ہے اور اسے غیرضروری قرار دیا ہے۔

آزاد تجارت کے فروغ کے لئے سرگرم ایک غیرسرکاری تنظیم انڈیا فری ٹریڈ ایگریمینٹ کے ڈائریکٹر سمت کوٹھاری نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا’’یورپی یونین کے سامنے یہ بات واضح کردینی چاہئے کہ ان کے یہ شرائط اپنے آپ میں غیر جمہوری ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یورپی پارلیمنٹ جس طرح کا رویہ اپنا رہی ہے اس سے بھارت کے چھوٹے کسانوں، دکان داروں، عورتوں اور قبائلیوں پر دور رس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہاں تاجر برادری کا بھی خیال ہے کہ اس طرح کے شرائط عائد کرنے سے تجارتی مذاکرات رک جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کا رویہ دراصل کساد بازاری کے دور میں بھارت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔

Linke protestieren in Hyderabad, Indien, für Landverteilung an Arme
یورپی یونین کو بھارت میں انسانی حقوق کی حورت حال کے حوالے سے اعتراضات ہیںتصویر: AP

سمت کوٹھاری کا کہنا ہے کہ یہ شرائط غیر ضروری ہیں اور بھارتی حکومت کسی بھی صورت میں انہیں تسلیم نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے کوئی بھی تجویز بھارت کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی اور اگر یورپی پارلیمنٹ اپنی شرائط پر مصر رہتی ہے تو بھارت بھی بعض شرائط رکھنے پر غور کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک اپنے کسانوں کو جس طرح سبسڈی دیتے ہیں اس سے بھارت کے کسانوں اور زرعی سیکٹر پر خاصا منفی اثر پڑتا ہے۔

خیال رہے کہ یورپی یونین نے اسی طرح کے شرائط چین اور چلی کے سامنے بھی رکھی تھیں۔ حقوق انسانی کے علمبردار اور ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکیومنٹیشن سینٹر کے سربراہ روی نائر کا خیال ہے کہ ان شرطو ں کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا ہے۔ یہ صرف پبلسٹی کے لئے ہوتے ہیں۔ ا نہوں نے کہا کہ چین اور یورپی یونین کے درمیان جس سطح پر تجارت ہورہی ہے اس کے مدنظر یورپی یونین چین کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہوئے کتراتی ہے اور بھارت کو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس طرح کے شرائط ماننے کی پابند نہیں ہوتی۔

دریں اثنا بھارت اور یورپی یونین کے درمیان 16مارچ کو ہونے والی بات چیت ملتوی کردی گئی ہے۔ تاہم یہاں یورپی کمیشن کے دفتر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مذاکرات کی ملتوی کا یورپی پارلیمنٹ کی مذکورہ رپورٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ بعض عملی وجوہات کی بناپر یہ مذاکرت ملتوی کئے گئے ہیں اور ان کی نئی تاریخوں کا جلد ہی اعلان کیا جائے گا۔