1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین: رکن ممالک مشترکہ سرحدی کنٹرول پر راضی

عاطف توقیر22 اپریل 2016

یورپی یونین میں شامل ریاستوں نے رواں برس کے موسم گرما تک مشترکہ سرحدی حفاظتی اور کوسٹ گارڈ نظام متعارف کرانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے مہاجرین کے بہاؤ کو روکنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Iacj
Luxemburg Treffen der EU-Innenminister
تصویر: Getty Images/AFP/J. Thys

یورپی یونین میں شامل ریاستوں نے رواں برس کے موسم گرما تک مشترکہ سرحدی حفاظتی اور کوسٹ گارڈ نظام متعارف کرانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے مہاجرین کے بہاؤ کو روکنا ہے۔

مشترکہ یورپی سرحدی اور کوسٹ گارڈ کنٹرول میں 28 رکنی یورپی یونین کے تمام ممالک حصہ لیں گے۔ اس اقدام کے لیے مینڈیٹ یورپی یونین کے موجودہ ششماہی کے لیے صدر ملک ہالینڈ کو دے دیا گیا ہے۔

یہ فیصلہ یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ لکسمبرگ میں ہونے والے اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں یورپی پارلیمان میں جلد از جلد کھلی بحث شروع کی جائے گی۔

Griechenland Frontex Küstenwache bei Lesbos
فرنٹیکس کو مزید اختیارات دیے جائیں گےتصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff

ڈچ وزیرِ داخلہ کلاس ڈیکہوف (Klaas Dijkhoff) نے بتایا کہ یہ فورس یورپی یونین کی سرحدی محافظ ایجنسی فرنٹیکس کی زیرنگرانی کام کرے گی اور اس طرح فرنٹیکس کی قوت اور اختیارات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیترس اوراموپولوس نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ یورپی بارڈر اینڈ کوسٹ گارڈ یونٹ رواں برس جون کے وسط سے اپنا کام شروع کر دے گا۔

یورپی یونین کے حکام کا کہنا ہے کہ اس ادارے کی مکمل تنظیم ایک طویل عمل ہو گا، تاہم جن معاملات کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، وہ اگلے چند ماہ میں فعال ہو جائیں گے۔

یورپی یونین کی جانب سے یہ فوری اقدام شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ سے یورپی ممالک پہنچنے والے مہاجرین کی بہت بڑی تعداد کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس یورپی یونین پہنچنے والے افراد کی تعداد ایک اعشاریہ ایک ملین تھی، جن میں سے قریب ایک ملین یونان کے راستے جب کہ باقی اطالوی جزائر کے راستے یورپی یونین میں داخل ہوئے تھے۔

یورپی وزرائے داخلہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ ترکی کے ساتھ طے پانے والی ڈیل کے بعد یونان پہنچنے والے مہاجرین کے بہاؤ میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ اس ڈیل کے مطابق غیرقانونی طور پر ترکی سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی بھیج دیا جائے گا اور ایسے ہر مہاجر کے بدلے ترکی میں مقیم ایک شامی مہاجر کو یورپ میں بسایا جائے گا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس ڈیل کے بعد مہاجرین زیادہ طویل اور خطرناک راستہ اپناتے ہوئے اٹلی پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چند روز قبل اسی کوشش میں مہاجرین کی ایک کشتی بحیرہء روم کی موجوں کی نذر ہو گئی تھی، جس کے نتیجے میں قریب پانچ سو افراد کی ہلاکت کے خدشات ہیں۔

ڈچ وزیرِ داخلہ نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’’اگر ہم بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہے، تو ہمیں ویسی ہی صورت حال کا سامنا ہو گا، جیسی ہم نے یونان میں دیکھی۔ انہوں نے اطالوی حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین پر پہنچنے والے مہاجرین کے معاملے کو درست انداز سے نمٹائے۔ ‘‘

انہوں نے یورپی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ مہاجرین کے بحران کے حل کے لیے امداد کریں اور ڈیل کے تحت ترکی سے زیادہ سے زیادہ شامی مہاجرین کو اپنے ہاں جگہ دیں۔