1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کو ہنگری واپس بھیجنے سے پرہیز کیا جائے، اقوام متحدہ

عاطف توقیر اے ایف پی
11 اپریل 2017

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہنگری میں تارکین وطن کے ساتھ ابتر سلوک اور بری صورت حال کے تناظر میں یورپی ممالک مہاجرین کو دوبارہ ہنگری بھیجنے جیسے اقدامات سے پرہیز کریں۔

https://p.dw.com/p/2b2Ez
Serbien Grenze Ungarn Flüchtlinge Zaun
تصویر: picture-alliance/abaca/O. Marques

پیر کے روز اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہنگری میں مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے حالات ناسازگار ہیں اور ایسے میں یورپی یونین کے رکن ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے ہاں پہنچنے والے تارکین وطن کو دوبارہ ہنگری نہ بھیجیں۔

ہنگری میں تارکین وطن کی حالت پہلے ہی خراب تھی، تاہم گزشتہ ماہ بوڈاپیسٹ حکومت کی جانب سے نئے قوانین متعارف کرائے جانے کے بعد سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو زیرحراست رکھنے کے اقدامات نے، یہ صورت حال مزید ابتر بنا دی ہے۔

Ungarisch-Serbische Grenze Containerlager für Flüchtlinge
ہنگری میں نئے قانون کے تحت تارکین وطن کو حراست میں رکھا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Vojinovic

اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین فِلیپو گرانڈی نے کہا، ’’میں یورپی ممالک سے التماس کرتا ہوں کہ وہ ڈبلن معاہدے کے تحت سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو ہنگری کے حکام کے حوالے کرنے کے عمل کو معطل کر دیں، کیوں کہ وہاں کے حکومتی اقدامات اور پالیسیاں یورپی اور بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتیں۔‘‘

یورپی یونین کے ڈبلن معاہدے کے تحت سیاسی پناہ کے کسی متلاشی شخص کو ایک سے زیادہ ممالک میں درخواستیں جمع کرانے سے روکنے کے لیے ضابطہ طے کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق کسی تارک وطن کو یورپی یونین کی اس پہلی رکن ریاست میں واپس بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ سب سے پہلے پہنچا۔ یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے علاوہ یونین کی غیررکن ریاستیں ناروے اور سوئٹزرلینڈ بھی اس معاہدے کی پابند ہیں۔

ہنگری پہلے ہی یورپی ممالک کی جانب سے ڈبلن نظام کے تحت تارکین وطن کی منتقلی کو مسترد کرتا ہے، کیوں کہ اس کا موقف ہے کہ اس کی سرزمین سے گزر کر مغربی یورپ پہنچنے والے مہاجرین میں سے زیادہ تر یونان کے راستے یورپ میں داخل ہوئے اور انہیں بھیجا بھی وہیں جانا چاہیے۔

ایک امدادی ادارے کے مطابق گزشتہ برس ہنگری کو اس نظام کے تحت تارکین وطن قبول کرنے سے متعلق قریب ستائیس ہزار درخواستیں موصول ہوئیں، تاہم اس نے صرف پانچ سو تیرہ تارکین وطن کو قبول کیا۔