1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ سے مہاجرین کی ملک بدری آسان نہیں

شمشیر حیدر
17 فروری 2017

مہاجرین کے بحران کے دوران لاکھوں ایسے تارکین وطن بھی یورپ پہنچے جنہیں پناہ ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان میں سے کئی کی پناہ کی درخواستیں مسترد بھی ہو چکیں لیکن اب تک انہیں ملک بدر نہیں کیا جا سکا۔

https://p.dw.com/p/2Xk2y
Griechenland Lesbos Rückführung von Flüchtlingen in die Türkei
تصویر: Reuters/G. Moutafis

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی برسلز سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اٹھائیس رکنی یورپی یونین اب تک بہت کم تارکین وطن کو ملک بدر کر کے ان کے آبائی وطنوں کی جانب بھیج سکی ہے۔ یورپ کی بیرونی سرحدوں کے نگران ادارے ’فرونٹیکس‘ کی جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس یورپ بھر سے تین لاکھ پانچ ہزار غیر یورپی پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا جانا تھا تاہم ان میں سے چالیس فیصد سے زائد افراد کو واپس ان کے آبائی وطنوں کی جانب نہ بھیجا جا سکا۔

’جو جتنی جلدی واپس جائے گا، مراعات بھی اتنی زیادہ ملیں گی‘

جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر

فرونٹیکس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس مجموعی طور پر ایک لاکھ چھہتر ہزار کو یورپ بھر سے ملک بدر کر کے ان کے آبائی وطنوں یا دیگر غیر یورپی ممالک بھیج دیا گیا۔ یوں یہ تعداد اٹھاون فیصد بنتی ہے۔ تاہم وطن واپس جانے والے پناہ گزینوں کی حقیقی تعداد رپورٹ میں بتائی گئی تعداد سے کافی کم ہے کیوں کہ چار یورپی ممالک نے ایسے تارکین وطن کو بھی شمار کر رکھا ہے جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں لیکن ابھی تک انہیں ملک بدر نہیں کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں اُن وجوہات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جن کی بنا پر تارکین وطن کی ملک بدری میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ فرونٹیکس کے مطابق عام طور پر پناہ گزینوں کے پاس پاسپورٹ اور دیگر شناختی دستاویزات نہیں ہوتیں۔ علاوہ ازیں ان کے آبائی وطن بھی تارکین وطن کی واپسی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ فرونٹیکس کی رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ جب تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواست کسی ایک یورپی ملک میں مسترد کر دی جاتی ہے تو وہ بھاگ کر یونین کے کسی دوسرے ملک میں پناہ کی درخواستیں جمع کرا دیتے ہیں۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے یونین کی بیرونی سرحدوں کے نگران ادارے نے تارکین وطن کی ملک بدری یقینی بنانے کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے۔ فرونٹیکس کے مطابق یورپ بھر سے جمع کیے گئے قریب سات سو ماہرین پر مشتمل اس ٹیم میں ایسے اہلکار بھی شامل کیے جا رہے ہیں جو پناہ گزینوں کی واپسی کی امور میں مہارت رکھتے ہیں۔

یہ خصوصی ٹیم غیر یورپی تارکین وطن کی ملک بدری کے عمل میں یورپی حکومتوں کی معاونت کرے گی۔ خصوصی اہلکار پناہ گزینوں کے آبائی وطنوں کے سفارت خانوں اور کونسل خانوں سے رابطہ کر کے ان کی سفری دستاویزات کی تیاری سے لے کر پھر ان کی وطن واپسی کے عمل کی نگرانی تک معاونت فراہم کریں گے۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے