1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں سیاسی پناہ: پاکستانيوں کے لیے امکانات

انٹرويو : عاصم سليم28 اکتوبر 2015

جرمنی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان کے مطابق يورپ ميں پناہ گزينوں کے بحران سے نمٹنے کے ليے غير مستحق افراد کی ملک بدری لازمی ہے۔ ايسے ميں ہزاروں افغان اور پاکستانی پناہ گزينوں کو وطن واپس جانا پڑے گا۔

https://p.dw.com/p/1GvK5
تصویر: picture-alliance/UNHCR

يورپ کو اِن دنوں دوسری عالمی جنگ کے بعد پناہ گزينوں کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ مشرق وسطیٰ، شمالی افريقہ، پاکستان اور افغانستان کے علاوہ کئی دیگر ممالک سے رواں سال اب تک قريب 700,000 مہاجرين يورپ پہنچ چکے ہيں اور پناہ گزينوں کی آمد کا يہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ چند يورپی ممالک نے شورش زدہ ممالک سے آنے والے پناہ گزينوں کے ليے دروازے کھلے رکھے ہيں، تو حاليہ دنوں ميں کچھ رياستوں کی جانب سے سخت تر حکمت عملی بھی اختيار کر لی گئی ہے۔ مہاجرين کی بھاری اکثريت مغربی يورپی ممالک بالخصوص جرمنی پہنچنے کی خواہاں ہے۔

يورپی يونين کی چند رکن رياستوں اور بلقان ممالک کے رہنماؤں کے درميان گزشتہ اتوار کے روز ہونے والے ایک اجلاس ميں کئی اہم فيصلے کيے گئے، جن کے ذريعے وقتی طور پر اس صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کی جائے گی۔ ڈی ڈبليو نے تازہ يورپی اقدامات اور مہاجرين کے موجودہ بحران کی مجموعی صورتحال پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرين UNHCR کی جرمن شاخ کے ترجمان شٹيفان ٹيلوئکن (Stefan Telöken) سے خصوصی گفتگو کی ہے۔

جرمنی ميں اسلام مخالف تنظيم پيگيڈا کی ريلی کا ايک منظر
جرمنی ميں اسلام مخالف تنظيم پيگيڈا کی ريلی کا ايک منظرتصویر: Getty Images/S. Gallup

ڈی ڈبليو: پناہ گزينوں کو بلقان ممالک سے گزرنے والے روٹ پر ہی سہوليات فراہم کرنے سے متعلق تازہ يورپی اقدامات کس حد تک کارآمد ثابت ہوں گے؟

شٹيفان ٹيلوئکن : يہ پہلا اہم اقدام ہے۔ اس وقت سب سے زيادہ ضروری يہی ہے کہ جن اقدامات پر اتفاق ہوا ہے، ان پر عملدرآمد کيا جائے۔ امکان ہے کہ اس سے بہتری آئے گی تاہم حقيقی صورتحال ميں کيا ہوتا ہے، يہ ديکھنا پڑے گا۔ ميں سمجھتا ہوں کہ اگر تمام طے شدہ اقدامات پر عملدرآمد کيا جائے تو متاثرہ ممالک ميں اس حوالے سے استحکام ضرور پيدا ہو گا اور سردی کے اس موسم ميں کچھ عرصے کے ليے پناہ گزينوں کو ريليف ملے سکے گا۔

ڈی ڈبليو: ابھی تک پناہ گزينوں کی براستہ ترکی يونان آمد کے سلسلے کو روکنے کے ليے کچھ نہيں کيا گيا۔ امدادی تنظيموں کو فنڈز کی قلت کا سامنا ہے اور ايسے ميں يہ تنظيميں آخر کب تک ہزارہا مہاجرين کو بنيادی سہوليات فراہم کرتی رہيں گی؟

شٹيفان ٹيلوئکن : اس بارے ميں پيشن گوئی کرنا کافی مشکل ہے۔ يہ بات البتہ واضح ہے کہ شورش زدہ ممالک کے پڑوسی ملکوں ميں موجود کئی ملين پناہ گزينوں کے ليے وہيں حالات ميں بہتری لانا اس وقت کی اولين ترجيح ہے۔ قريب ايک ملين پناہ گزين لبنان ميں ہيں، تقريباً دو ملين شامی مہاجرين ترکی کے کيمپوں ميں وقت گزار رہے ہيں اور چھ لاکھ سے زائد اردن ميں موجورد ہيں۔ ان پناہ گزينوں کے حالات تبديل نہ ہونے کی صورت ميں ايسا بھی ممکن ہے کہ مستقبل ميں مزيد مہاجرين يورپ کا رخ کريں۔

ڈی ڈبليو: جرمنی ميں سياسی پناہ کے قوانين ميں تراميم کی حاليہ پيش رفت کے تناظر ميں يہاں پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے پناہ گزينوں کے سياسی پناہ کے حصول کے امکانات کيسے ہيں؟

شٹيفان ٹيلوئکن : ميری اطلاعات کے مطابق ’پروٹيکشن کوڈ‘ کے تحت افغان شہريوں کے امکانات تيس تا چاليس فيصد بنتے ہيں۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ ہر افغان شہری کی سياسی پناہ کی درخواست منظور نہيں ہو گی يا ہر درخواست دہندہ کو بين الاقوامی تحفظ کی فراہمی کے ليے حقدار نہيں سمجھا جائے گا۔ دوسری جانب پاکستان کے ليے پروٹيکشن ريٹ تو انتہائی نيچا ہے۔ ہمارے ادارے کے ليے يہ بات واضح ہے کہ کسی قابل بھروسہ سياسی پناہ کے نظام کے ليے يہ ضروری ہے کہ ان افراد يا پناہ گزينوں کی شناخت کی جائے، جنہيں حقيقتاً بين الاقوامی تحفظ درکار ہے۔ يہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ جن افراد کو تحفظ درکار نہيں، انہيں ملک بدر کيا جائے يا ان کی واپسی کو يقينی بنايا جائے۔

ڈی ڈبليو: متعدد افغان پناہ گزينوں کا موقف ہے کہ ان کے ملک ميں پچھلے تقريباً تيس برس سے جنگ جاری ہے۔ ايسی صورتحال ميں ديگر ممالک کے مہاجرين کو کيوں فوقيت دی جا رہی ہے۔ کيا افغانستان ميں تمام علاقے مکمل طور پر محفوظ ہيں؟ قندوز ميں طالبان کے حاليہ حملوں کے تناظر ميں کيا افغانستان کو مکمل طور پر محفوظ قرار ديا جا سکتا ہے؟

شٹيفان ٹيلوئکن : مجموعی طور پر ديکھا جائے تو UNHCR کا موقف يہی ہے کہ شام اور افغانستان کی صورتحال يکساں نہيں۔ ہمارے ادارے نے کبھی يہ موقف اختيار نہيں کيا کہ ہر افغان شہری سياسی پناہ کا مستحق ہے۔ ايسے ميں کچھ افغان پناہ گزينوں کی وطن واپسی ممکن ہے۔ بہتر يہی ہو گا کہ ناکام درخواست دہندگان رضاکارانہ طور پر ہی واپسی کا رخ کر ليں۔

ڈی ڈبليو: چيک جمہوريہ اور ہنگری جيسے چند يورپی ممالک ميں پناہ گزينوں کے ساتھ ابتر سلوک کے سبب مقامی حکام تنقيد کی زد ميں ہيں۔ کيا جرمنی ميں اس حوالے سے حالات مختلف ہيں؟

شٹيفان ٹيلوئکن : جرمنی ميں ہجرت پرانی روايت کی مانند ہے۔ يہ نہ صرف جرمن معاشرے کا حصہ ہے بلکہ اس حوالے سے آئين ميں بھی شقيں موجود ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ مہاجرت کا موضوع جرمنی ميں کليدی اہميت کا حامل ہے اور مشکل صورتحال ميں اس پر کافی بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے۔ ہم ديکھ سکتے ہيں کہ کتنی تعداد ميں جرمن شہری پناہ گزينوں کی حمايت ميں سڑکوں پر آئے۔

بہرحال اس وقت يہ ايک پيچيدہ معاملہ ہے، اب بھی روزانہ ہزاروں کی تعداد ميں مہاجرين جرمنی پہنچ رہے ہيں۔ ديگر يورپی ملکوں ميں سياسی پناہ کے مقابلتاً کم مواقع کی وجہ سے جرمنی اس وقت کافی مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ سياسی پناہ کے معاملے ميں UNHCR يورپ ميں ايک مشترکہ پاليسی کے حق ميں ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ ذمہ داری تقسیم کرنا ہو گی نہ کہ صرف چند ہی ملکوں پر بوجھ پڑ جائے اور يہ يورپی يونين کا کام ہو نا چاہيے، اس ليے بھی کيونکہ يورپی بلاک کی جانب سے جو فيصلے کيے جاتے ہيں ان کے عالمی سطح پر اثرات مرتب ہوتے ہيں۔

رواں سال اب تک قريب 700,000 مہاجرين يورپ پہنچ چکے ہيں
رواں سال اب تک قريب 700,000 مہاجرين يورپ پہنچ چکے ہيںتصویر: picture-alliance/dpa/S. Palacios

ڈی ڈبليو: جرمنی ميں تيزی سے سرد ہوتے ہوئے موسم کے علاوہ امدادی تنظيموں کو کون سے ديگر چيلنجز کا سامنا ہے؟

شٹيفان ٹيلوئکن : سب سے اہم مسئلہ پناہ گزينوں کی رہائش کا ہے۔ ہم يہاں ديکھ رہے ہيں کہ عارضی رہائش گاہوں ميں گنجائش سے زائد افراد موجود ہيں۔ ديگر چيلنجز ميں عن قريب شروع ہونے والی انتہائی سخت سردی اور سياسی پناہ سے متعلق فيصلہ سازی کے عمل ميں مشکلات بھی شامل ہيں۔ ہم سياسی پناہ کے ہزاروں کيسز کی بات کر رہے ہيں، جن پر فيصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ پھر معاملہ بھروسے کا ہے، جرمن شہريوں کی نصف يا اسے سے بھی زائد تعداد يہ سمجھتی ہے کہ اس بحران سےنمٹا جا سکتا ہے ليکن اس ميں وقت لگے گا۔ يہ بات واضح ہے کہ ملک بدريوں کے بعد بھی ہزارہا پناہ گزينوں کو جرمنی ميں سياسی پناہ مل جائے گی۔ اگلا قدم ان افراد کے جرمن معاشرے میں انضمام کا ہے اور اس سلسلے ميں برلن حکومت کافی دلچسپی رکھتی ہے۔

ڈی ڈبليو: يورپ آنے والے مہاجرين کی اکثريت ايسے علاقوں سے ہے، جہاں فرقہ وارانہ فسادات معاشرے کا حصہ ہيں۔ يہ افراد جب اپنے ذاتی نظريات اور اختلافات کے ساتھ يورپی معاشرے کا حصہ بنيں گے، تو ان سے منسلک مسائل سے کيسے نمٹا جا سکتا ہے؟

شٹيفان ٹيلوئکن : ميں اميد کرتا ہوں کہ يورپی حکومتيں ان سے معقول انداز ميں نمٹيں گی۔ يہ حقيقت ہے کہ اس حوالے سے خدشات موجود ہيں۔ چند کيمپوں ميں جھڑپوں کی رپورٹيں سامنے آئی ہيں ليکن شايد اس کی وجہ گنجائش سے زائد افراد بھی ہيں اور ايسا بھی ممکن ہے کہ لوگ توقعات پوری نہ ہونے کے سبب ايک دوسرے سے جھگڑ پڑے ہوں۔ يہ امر اہم ہے کہ جرمنی ايک ايسا ملک ہے، جہاں تحفظ کی فراہمی کی بين الاقوامی ذمہ دارياں پوری کی جاتی ہيں اور عموماً اس کا معيار کافی اچھا ہوتا ہے۔