1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں کوکین کے استعمال میں دو گنا اضافہ

18 مئی 2011

فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے حال ہی میں پیرس میں ایک بیان دیتے ہوئے یورپ میں کوکین کے استعمال میں دوگنے اضافے سے متنبہ کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/11Ikr
یورپی نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہےتصویر: Fotolia/NatUlrich

سارکوزی کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران یورپ میں نشہ آور شے کوکین کا استعمال بڑھ کر دو گنا ہو گیا ہے۔ اس وقت یورپی ممالک میں کوکین کا نشہ کرنے والوں کی تعداد چار ملین بتائی جاتی ہے، جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا کے آٹھ طاقتور ترین صنعتی ممالک کے گروپ جی 8 کا اجلاس حال ہی میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں منعقد ہوا۔ اس اہم موضوع پر بات چیت کے لیے یورپ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے دیگر 14 ممالک کے اہلکاروں نے بھی اجلاس میں حصہ لیا۔ کانفرنس کا مقصد ماورائے اوقیانوس کوکا کی تجارت کے خلاف ایک ایکشن پلان کا مسودہ تیار کرنا تھا۔

اس معاہدے پر دراصل 22 ممالک کے ترجمان پہلے ہی دستخط کر چکے ہیں۔ 26 اور 27 مئی کو جی 8 کا اجلاس فرانس میں ہی منعقد ہو گا، جو آج کل جی 8 گروپ کی صدارت کر رہا ہے۔

کوکا کا پودا، جس سے کوکین نکلتی ہے، سب سے زیادہ کوہ انڈیز پر قائم ممالک مثلاً پیرو، کولمبیا، اور بولیویا میں پایا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے طویل پہاڑی سلسلہ ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران کوکا کے پودے سے نکلنے والی نشہ آور دوا کوکین کی یورپی ممالک تک رسائی کا راستہ افریقی ممالک بنے ہیں، جن کے ذریعے یہ یورپ کے مختلف ممالک تک کم وقت میں پہنچ جاتی ہے۔

منشیات کی تجارت کے خلاف جی 8 گروپ کی طرف سے تشکیل شدہ معاہدے کے تحت یہ بھی طے پایا ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے آپریشنز میں جو اثاثے ہاتھ آئیں گے، اُن کی مدد سے اقوام متحدہ کا ایک مخصوص فنڈ قائم کیا جائے گا۔ اس فنڈ کو ترقی پذیر اور ترقی کی دہلیز پر کھڑی ریاستوں میں انسداد منشیات کے سلسلے میں کی جانے والی کارروائیوں پر آنے والے اخراجات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

اُدھر ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام پر زیادہ اور اس کے استعمال پر پابندی کے ضمن میں ناکافی اقدامات کر رہے ہیں۔ ’یورپین مونیٹرنگ سینٹر فار ڈرگز اینڈ ڈرگ ایڈکشن‘ کے ایک اعلٰی عہدیدار گریگور برکہارٹ کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک میں میڈیا کوریج سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہاں پر منشیات کا استعمال نارمل سی بات ہے اور حقیقی معنوں میں اس کا جتنا رواج ہے، اُس سے زیادہ اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔ گریگور کے بقول امریکہ اور اسکاٹ لینڈ جیسے ممالک میں چند ہیلتھ کیئر پروگرام اس سلسلے میں بہتر کام انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انسداد منشیات کے مختلف پروگراموں کا مقصد ہر طرح کی نشہ آور اشیاء کے استعمال کے خلاف جنگ ہونا چاہیے، نہ کہ محض کوکین اور ہیروئن کے استعمال سے عوام کو باز رکھنے کی کوششیں کی جانی چاہییں۔

برکہارٹ نے کہا ہے کہ الکحل اور تمباکو کے استعمال اور ان اشیاء کی فروخت کے خلاف سخت تر قوانین ہی دراصل انسداد منشیات کے پروگرام کی کامیابی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ اس ضمن میں سماجی ناہمواری، خاص طور سے تعلیم اور صحت کے شعبے میں پایا جانے والا عدم توازن، نیز آمدنی میں بہت زیادہ فرق بھی منشیات کے استعمال میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے ان معاشرتی مسائل پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔

یورپ کے مختلف ممالک میں ڈرگ کلینکس بھی قائم کیے گئے ہیں۔ مثلاً برلن کے ’کوکون سینٹر‘ میں معمول کےاوقات کے علاوہ بھی مریضوں کو علاج کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور شہر کے مسائل سے دوچار مختلف علاقوں پر بھی توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ اس سینٹر کا مقصد منشیات کے عادی دونوں طرح کے مریضوں کا علاج کرنا ہے، ان کا بھی، جو سماجی مسائل کے سبب منشیات کی لعنت میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کا بھی، جو ویک اینڈز یا دیگر خاص مواقع پر منشیات کا شوقیہ استعمال کرتے کرتے اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔

’جرمن مونیٹرنگ سینٹر فار ڈرگز اینڈ ڈرگ ایڈکشن‘ سے منسلک ایک ماہر فائفر گیئرشل کا کہنا ہے کہ امیر، ترقی یافتہ یورپی ممالک میں بھی اس طرح کے مراکز گنے چُنے ہیں، جبکہ ایسے سینٹرز زیادہ سے زیادہ بننے چاہییں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں