1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Steinmeier EU

Steinmeier, Frank Walter 6 اگست 2008

آئر لینڈ منعقدہ ریفرینڈم میں لزبن اصلاحاتی پیکیج کے مسترد کئے جانے کے بعد ایک بار پھر یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ براعظم یورپ کا مستقبل کیا ہو گا۔ ڈوئچے ویلے آن لائن کے لئے فرانک والٹر شٹائن مائر کی خصوصی تحریر۔

https://p.dw.com/p/Erk5
وفاقی جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائرتصویر: AP

یورپ کا مستقبل کیا ہو گا؟ ایک بار پھر ہم یہ سوال پوچھ رہے ہیں۔ حالانکہ ایک سال پہلے ہم سب اِس حوالے سے بہت مطمئن ہو گئے تھے۔ تب لگتا تھا کہ یورپ کے بحران پر قابو پا لیا گیا ہے۔ گو مشترکہ آئین کے منصوبے ہم نے ترک کر دئے تھے لیکن اصلاحاتی پیکیج کا وہ منصوبہ بہرحال باقی رہ گیا تھا، جو چند ماہ گذرنے کے بعد لزبن معاہدے کی شکل اختیار کر گیا۔ لیکن آج؟ اِس نئے معاہدے کی 23 مرتبہ توثیق کر دی گئی۔ ایک بار لیکن اِسے مسترد کر دیا گیا، 12 جون کو آئر لینڈ میں منعقدہ ریفرینڈم میں۔ مجھے یورپی وُزرائے خارجہ کے وہ بجھے ہوئے چہرے آج بھی اچھی طرح سے یاد ہیں، جو اِس ریفرینڈم کے چند روز بعد برسلز میں جمع ہوئے تھے۔

سلووینیہ سے تعلق رکھنے والے میرے ہم منصب نے، جو تب یورپی کونسل کے صدر بھی تھے، تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وہ سوال کیا، جو یورپ میں سب کے ذہنوں پر چھایا ہوا تھا: اب کیا ہو گا؟ کیا کوئی نیا معاہدہ تیار کیا جائے؟ یا نِیس کے مقام پر طے کئے گئے پرانے ضوابط پر ہی قائم رہا جائے؟ اِس سوال کا جواب یورپی کونسل نے چند روز بعد دیا: نہ پہلی تجویز درست ہے اور نہ ہی دوسری۔ جواب یہ تھا: ہم لزبن معاہدے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اِس معاہدے کی توثیق کا عمل جاری رکھا جائے۔ اور ہم آئر لینڈ کے عوام کے ساتھ مل کر اِس مسئلے کا حل تلاش کریں گے۔

میرے خیال میں یورپی کونسل میں ہم نے درست فیصلہ کیا۔ یورپ کو لزبن معاہدے کی ضرورت ہے۔ یہ مَیں اِس لئے نہیں کہہ رہا کہ جرمنی کی صدارت کے دَور میں ہم نے سینکڑوں ملاقاتوں میں اِس کی ایک ایک شِق کے لئے ساتھیوں کو قائل کیا ہے۔ نہیں، یہ معاہدہ وہ بہت سی چیزیں طے کرتا ہے، جنہیں شہری یورپ کے حوالے سے بجا طور پر ہدفِ تنقید بناتے ہیں اور یہ سیدھے سیدھے اپنے پیش رَو سمجھوتوں اور معاہدوں سے بہتر ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ یورپ میں جمہوریت اور زیادہ مستحکم ہو گی۔ یورپی پارلیمان، جو شہریوں کی طرف سے منتخب کیا گیا یورپی یونین کا واحد ادارہ ہے، برابر کے حقوق رکھنے والے ایک قانون ساز ادارے کی شکل اختیار کر جائے گا۔ قومی پارلیمانی اداروں کو قانون سازی کے عمل میں اب تک کے مقابلے میں بہت پہلے شریک کر لیا جایا کرے گا۔ یہ قومی پارلیمانی ادارے یورپی عدالت سے بھی رجوع کر سکتے ہیں، اگر وہ یہ سمجھتے ہوں کہ کچھ مسائل یورپی سطح پر طے کئے جا رہے ہیں جبکہ وہ آتے رکن ممالک کے اپنے دائرہء اختیار میں ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ یورپ میں عملی اقدامات کی اہلیت بڑھے گی۔ یورپی یونین کے رکن ملکوں کی تعداد 27 ہے۔ اب تک کے معاہدے اِس تعداد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وضع نہیں کئے گئے۔ اور اُس صورت میں تو بالکل بھی نہیں کہ جب ہم اُن مزید ملکوں کو اِس میں شامل کرنا چاہیں، جن سے ہم نے وعدے کئے ہیں کہ ہم اُنہیں یورپ کے قریب لانیں گے۔ لزبن معاہدہ نئے حالات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو گا: کمیشن کے سائز سے لے کر کونسل میں رائے شماری کے طریقہء کار تک۔ یہ ساری چیزیں یورپ میں فیصلہ سازی کے عمل کو بڑی حد تک مؤثر بنائیں گی۔

تیسری بات، جو میرے لئے بطور وزیر خارجہ خاص طور پر اہم ہے، یہ ہے کہ اِس معاہدے کے ذریعے یورپ دُنیا میں زیادہ نمایاں طور پر سامنے آئے گا۔ قومی سطح پر خارجہ پالیسیاں بدستور موجود رہیں گی۔ لیکن یورپی خارجہ پالیسی کے امکانات بہتر ہو جائیں گے۔ اور خواہ نئے ’’وزیر خارجہ‘‘ کا یہ نام اور عہدہ نہیں ہو گا: وُزرائے خارجہ کی کونسل کے چیئرمین اور یورپی کمیشن کے نائب چیئرمین کے طور پر اُس کے اختیارات نمایاں طور پر مستحکم ہو جائیں گے۔

آج ہم ایک ایسی دُنیا میں رہ رہے ہیں، جو ڈرامائی طور پر تبدیل ہو رہی ہے۔ طاقت کے نئے مراکز تشکیل پا رہے ہیں، اقتصادی لحاظ سے بھی لیکن زیادہ سے زیادہ سیاسی اعتبار سے بھی۔ رُوس، چین، بھارت لیکن ساتھ ساتھ برازیل اور میکسیکو بھی، ہمیں ایک ایسی ذمہ دار شراکت کی ضرورت ہے، جس میں مستقبل کی طاقتوں کو بھی ساتھ جوڑا گیا ہو۔ تحفظِ ماحول، توانائی کے مسلسل کم ہوتے ہوئے معدنی ذخائر، دہشت گردی اور اسلحہ بندی کے خلاف جنگ، یہ ہیں وہ سوال، جن کے جواب ہمیں آج درکار ہیں۔

کوئی یورپی ملک اتنا بڑا نہیں کہ وہ اکیلے یہ سارے کام کر سکے۔ اگر ہم کامیابی کے خواہاں ہیں تو ہمیں مشترکہ طور پر عملی اقدامات کا اہل بننا ہو گا۔ اور ایسی دُنیا میں تو اِس کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے، جو یہ سوچ بھی نہیں رہی کہ وہ اتنی دیر انتظار کر لے گی، جتنی دیر میں یورپ اپنے داخلی مسائل حل کر لے۔ اِس لئے ہمیں آج کے دور سے ہم آہنگ وہ ضوابط اور طریقہ ہائے کار درکار ہیں، جن کا لزبن معاہدے میں ذکر کیا گیا ہے۔ اور اِسی لئے یہ درست ہی ہے کہ ہم اِسی معاہدے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

بلاشبہ موجودہ صورتِحال آسان ہرگز نہیں، آئر لینڈ کے لئے بھی نہیں اور باقی تمام رکن ممالک کے لئے بھی نہیں۔ آئر لینڈ کی قیادت نے یقین دلایا ہے کہ وہ اِسی سال کے دوران ایسی تجاویز پیش کرے گی کہ اِس مسئلے کے ممکنہ متبادل حل کیا ہو سکتے ہیں۔ لیکن اُنہوں نے مہلت بھی طلب کی ہے، تاکہ وہ آرام اور تسلی کے ساتھ اپنے عوام کی جانب سے اِس معاہدے کو قبول کرنے سے انکار کی وجوہات کا تجزیہ کر سکیں۔ مَیں اِس بات کے بہت حق میں ہوں کہ ہم اُنہیں یہ مہلت دیں۔ اور مَیں بہت پُراُمید ہوں کہ آخر کار ہم ایک اچھا اور قابلِ قبول حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، آئر لینڈ کے عوام کے لئے بھی۔ یورپ کامیابی کی تاریخ کا نام ہے۔ دُور اندیش سیاستدانوں نے اِسے تخلیق کیا ہے، تعمیر کیا ہے اور ہمارے ہاتھوں میں دیا ہے۔ امن اور خوشحالی وہ وعدے ہیں، جو یورپی یونین کی بنیاد ڈالتے وقت کئے گئے تھے۔ آج یہ وعدے بڑی حد تک پورے کئے جا چکے ہیں۔ آج لیکن ہمیں جس سوال کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ کیا ہم مستقبل میں ایک عالمگیر دُنیا میں بھی خود کو کامیاب ثابت کر سکیں گے؟ یہ سوال تب بلکہ تب اور بھی زیادہ اہم ہے، جب ہم اِس بارے میں بات کریں کہ لزبن معاہدے کا مستقبل کیا ہونا چاہیے۔

ابتدائی دَور کے ایک پُرعزم یورپی سیاستدان Hendrik Brugmans نے پچاس سال پہلے ہی کہہ دیا تھا: ’’عالمی سیاست میں یورپی اَقوام کے طور پر ہم اپنا کردار یا تو مشترکہ طور پر ادا کریں گے یا پھر بالکل نہیں کریں گے‘‘۔ میرے خیال میں وہ درست کہتے تھے۔ ایسے میں آئر لینڈ کے عوام کا انکار یورپ کے لئے ایک بند گلی کے مترادف نہیں سمجھا جانا چاہیے۔