1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یورپ کی جانب قانونی ہجرت کا راستہ کھولنا چاہیے‘

شمشیر حیدر تبصرہ: الیگزینڈر فروئنڈ
17 ستمبر 2017

بحیرہ روم کے راستوں سے یورپ آنے والے تین چوتھائی مہاجر بچے راستوں میں استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ مہاجرین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مہاجرت کی وجوہات کا تدارک ضروری ہے، سربراہ ڈی ڈبلیو شعبہ ایشیا، الیگزینڈر فروئنڈ کا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/2k7yo
Spanien Tarifa Ankunft Flüchtlinge Migranten
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Moreno

یورپ کی جانب ہجرت کرنے والے بچوں کی کہانیاں سنیں تو معلوم پڑتا ہے کہ انہیں راستوں میں کن بھیانک واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں ان مہاجر بچوں نے راستوں میں پیش آنے والے جو واقعات بیان کیے، تو ان میں تشدد، گولی مارنا، قتل، ریپ اور غلامی جیسے الفاظ بکثرت سنائی دیے۔

یورپ پہنچنے کی کوشش میں مہاجر بچے تشدد کا شکار

رپورٹ کے مطابق بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے مہاجر بچوں کی تین چوتھائی تعداد کو راستوں میں استحصال کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے خاندان کے کسی بالغ فرد یا افراد کے ساتھ سفر کرنے والے بچوں کے مقابلے میں تنہا سفر کرنے والے مہاجر بچوں کو لاحق خطرات دوگنا تھے۔

Freund Alexander Kommentarbild App
الیگزینڈر فروئنڈ ڈی ڈبلیو ایشیا کے سربراہ ہیں

اگرچہ سبھی مہاجرین کو کسی نہ کسی سطح پر استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس رپورٹ کے نتائج اس لیے بھی بہت بھیانک ہیں کہ موجودہ صورت حال میں نشانہ کمزور ترین طبقہ، یعنی مہاجر بچے بنے ہیں۔ ایسے تجربات کا سامنا کرنے والے بچوں کے صرف جسم ہی نہیں، روحیں بھی زخمی ہو جاتی ہیں۔ مہاجرین کو ’نئے وطن‘ پہنچنے کے بعد بھی اکثر عمر بھر معاشرے میں قبول نہ کیے جانے، بے خوابی، شرمندگی اور شدید ذہنی دباؤ جیسے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ لیکن جب بچے ایسے حالات کا سامنا کرتے ہیں تو ہمیں زیادہ تکلیف پہنچتی ہے، کیوں کہ بچے مستقبل کی علامت ہیں۔

میڈیا کا کردار

ایسی رپورٹوں کو شک کی نظر سے دیکھنے والے کئی افراد کہتے ہیں کہ میڈیا ایسے معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ اگرچہ یورپ پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن نوجوان مرد ہیں لیکن میڈیا بچوں کی تصویریں زیادہ دکھاتا ہے۔ کیمرے والے بھی ایسے مہاجر خاندانوں کی ویڈیو بناتے دکھائی دیتے ہیں، جن کے ہمراہ کم سن بچے ہوتے ہیں۔ جب زمینی حقیقت کچھ اور دکھائی دے اور میڈیا کچھ اور دکھا رہا ہو، تو ’جھوٹے میڈیا‘ کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نابالغ مہاجر بچوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔ دنیا بھر میں پچاس ملین سے بھی زیادہ بچے اپنے وطن سے دور کسی دوسرے ملک میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ ان میں سے پچاس فیصد سے زائد بچے جنگوں، بدامنی اور استحصال کے باعث ہجرت پر مجبور ہوئے۔

بلغاریہ میں پھنسے ہزارہا مہاجرین اور تارکین وطن

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال اپنی اس رپورٹ کے ذریعے یورپی یونین کا ضمیر جھنجھوڑنا چاہتا ہے۔ ادارے کے مطابق یورپ کو صدمہ زدہ مہاجر بچوں کی بڑی تعداد کو قانونی ہجرت کا راستہ فراہم کرنا چاہیے۔ یہ مطالبہ اس لیے بھی جائز دکھائی دیتا ہے کہ یورپی یونین ابھی تک مہاجرین کے بحران کا کوئی حل نہیں ڈھونڈ پائی۔ مزید مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے یورپ کی بیرونی سرحدوں کا تحفظ، شمالی افریقی ممالک میں مہاجر کیمپوں کا قیام اور خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے والے مہاجرین کو سفر سے قبل پیغام دینا کہ انہیں یورپ میں پناہ ملنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں، جیسے اقدمات اس بحران کے خاتمے کے لیے ناکافی ہیں۔

’مہاجر بچے کہاں سوتے ہیں‘

ہر ایک کو کردار ادا کرنا پڑے گا

معصوم بچوں کو درپیش حالات صرف یورپ کو قانونی ہجرت کے راستے کھولنے کی درخواست ہی نہیں کر رہے بلکہ یہ رپورٹ ان والدین کے لیے بھی ایک وارننگ ہے جو اپنے بچوں کے ہمراہ یورپ کے غیر قانونی سفر پر نکلتے ہیں۔ اپنے ممالک میں درپیش مسائل اور خطرات کے باوجود انہیں ایسے راستوں پر جانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے، جن راستوں پر نہ صرف انہیں بلکہ ان کے بچوں کو بھی سنگ دل اسمگلروں اور جرائم پیشہ افراد کی جانب سے استحصال کے شدید اندیشے ہیں۔

انسانی اسمگلنگ کے خلاف لیبیا اور یورپ متحرک

مہاجرت کا قانونی راستہ ایسے خطرات سے بچنے کا ایک قابل عمل اور محفوظ طریقہ ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے یورپ کو بہت جلد پناہ کے مشترکہ قوانین پر اتفاق کرنا پڑے گا۔

ان ممالک کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے جن کے ذریعے یورپ کی جانب غیر قانونی ہجرت کی جاتی ہے۔ یہ مہاجر اپنا سب کچھ چھوڑ کر نکلے ہوتے ہیں، ذرا سی انسانیت ان کے لیے امید بنتی ہے۔ مہاجر بچوں کو بھی عام بچوں کی طرح تعلیم اور کھیل کود کی ضرورت ہے اور ایسے ممالک کو بھی ان معصوموں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا چاہییں۔

آخرکار سب سے اہم مسئلہ ہجرت کے اصل وجوہات کا خاتمہ ہے۔ مہاجرین کے آبائی وطنوں میں صورت حال بہتر کیے جانے کی ضرورت ہے اور یورپ اس میں مدد کر سکتا ہے۔ کبھی مالی معاونت کارگر ثابت ہوتی ہے تو کبھی ترقیاتی منصوبے اور کبھی دباؤ۔ لیکن یہ صرف یورپ کی ہی ذمہ داری نہیں ہے، ان ممالک کے رہنماؤں کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سب مل کر کام کریں تو حالات جلد بہتر ہو جاتے ہیں ورنہ اس عمل میں برسوں بیت جاتے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے کام کرنا وقت کی ضرورت ہے کیوں کہ جب اپنے ملک میں امید کی کرن دکھائی دیتی ہو تو گھر کون چھوڑتا ہے۔

’مہاجرین کو جرمن سرحدوں سے لوٹایا جا سکتا ہے‘