1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یورپ کی زندگی بہت سخت ہے‘

عاطف بلوچ7 مارچ 2016

سرکوف عمر اور ریبین عبداللہ سہانے خواب سجائے یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی غرض سے پہنچے لیکن جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ اس براعظم میں نہیں رہ سکتے۔ اس خطرناک سفر پر انہوں نے ایک بڑی رقم بھی خرچ کی۔

https://p.dw.com/p/1I8VG
Deutschland Deggendorf Flüchtlinge in Turnhalle auf Matten ohne Abtrennung
تصویر: Getty Images/J. Koch

سرکوف عمر اور ریبین عبداللہ عراق کے کرد علاقے کے رہنے والے ہیں۔ ان دونوں نے رقوم جمع کیں، نوکریوں کو چھوڑا اور اپنی تمام تر جمع پونجی کے ساتھ یورپ کے سفر پر نکل پڑے۔ جب یہ بطور تارکین وطن یورپ پہنچے تو وہاں کی صورت حال ان کے اندازوں سے بالکل مختلف تھی۔ وہاں لوگوں سے بھرے مہاجر کیمپ، بھوک اور یخ کر دینے والی سردی نے انہیں پریشان ہی کر دیا۔

عمر اور عبداللہ اب واپس شمالی عراق میں اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ اب وہ بہتر زندگی کی خاطر اپنے سفر کو ایک ’تباہ کن‘ تجربہ قرار دیتے ہیں۔ ان دونوں نے یورپ کے سفر پر آٹھ لاکھ ڈالر فی کس خرچ کیے، جن میں زیادہ تر پیسے انسانوں کے اسمگلروں کو ادا کیے گئے۔

عمر بھر کی جمع پونجی بھی ضائع

وہ بتاتے ہیں کہ پہلے وہ کامیاب طریقے سے جرمنی پہنچے جہاں حالات انتہائی ناسازگار تھے، جس کے بعد وہ اپنی قسمت آزمانے سویڈن نکل گئے۔ تاہم انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ ان کے خواب تو ٹوٹ ہی چکے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کے عمر بھر کی جمع پونجی بھی ضائع ہو چکی ہے۔ جرمنی اور سویڈن کے مہاجر کیمپوں میں کئی ماہ کے قیام کے بعد انہوں نے وطن واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا۔

پچیس سالہ عمر نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بہت برا تجربہ تھا۔‘‘ جرمنی میں اپنے قیام پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ’’ہم وہاں بھوک کا شکار رہے۔ ہم وہاں سے اس لیے واپس آئے کیوں کہ ہم بھوک برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ وہ ہمیں صرف چائے اور پنیر دیتے تھے۔ ہمارا ہفتے کا الاوئنس صرف تیس یورو تھا۔‘‘

عمر اور عبداللہ بعد ازاں جرمنی سے سویڈن جانے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن وہاں بھی حالات ویسے ہی تھے۔ عمر نے بتایا، جب ہم سویڈن پہنچے تو اس وقت شدید سردی کا موسم تھا۔ مجھے شامیوں کے ایک کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ مجھے عربی نہیں آتی، اس لیے وہاں رہنا ایک مشکل کام تھا۔ ہم ایک دوسرے سے بات تک نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

عمر نے بتایا کہ تب ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ واپس عراق چلے جانا چاہیے۔ یورپ کو رخ کرنے والے ایسے ہزاروں تارکین وطن کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ ان کے ممالک میں خانہ جنگی یا شورش برپا ہوتی ہے۔ تاہم عمر اور عبداللہ اس حوالے سے خوش قسمت رہے کیوں کہ شمالی عراق میں کرد علاقے میں ایسے خطرناک حالات نہیں ہی، اس لیے وہ واپس لوٹنے میں ہچکچائے نہیں۔

جنیوا میں قائم ادارہ برائے مہاجرین (آئی او ایم) کا کہنا ہے کہ یورپ پہنچنے والے عراقی باشندوں کی تعداد ستّر ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ تاہم عراق کی ایک مقامی این جی او ’عراقی مہاجر فیڈریشن‘ کے مطابق یہ تعداد کہیں زیادہ ہے کیوں کہ گزشتہ برس چالیس ہزار سے زائد افراد کرد علاقوں سے بھی یورپ پہنچے تھے۔

Flüchtlingsunterkunft Tempelhof Berlin
یورپ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی کوشش میں ہےتصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

مہاجرت کی وجہ معاشرتی دباؤ بھی

آئی او ایم کی ترجمان ساندرہ بلیک کے مطابق یورپ میں موجود عراقی مہاجرین اور تارکین وطن کی درست تعداد کے بارے کوئی اندازہ لگانا مشکل ہے کیوں کہ بہت سے عراقی واپس وطن بھی لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ ایسے افراد کو امید کم ہے کہ وہ یورپ میں مستقل طور پر رہ سکتے ہیں، اس لیے وہ واپس جا رہے ہیں۔‘‘

عمر ریستورانوں اور سپر مارکیٹوں میں بطور مزدور کام کرتا تھا جب کہ عبداللہ ٹیکسی چلاتا تھا۔ عبداللہ نے یورپ جانے کے لیے اپنی ٹیکسی بھی بیچ دی تھی تاکہ وہ رخت سفر باندھ سکے۔ عمر کے بقول اپنے وطن کو ترک کرنے کی ایک وجہ معاشرتی دباؤ بھی تھا کیوں کہ بہت سے لوگ بہتر زندگی کی خاطر یورپ جا رہے تھے۔

عبداللہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’یورپ کی زندگی بہت سخت ہے۔ آپ کو انتظار کرنا ہوتا ہے اور ہم اس کے متحمل نہیں تھے۔ ہم اپنے وطن، کنبوں اور روایات سے بہت زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے لیے یہ ایک مشکل کام تھا۔ اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یورپ رہنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں