1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ کی سب سے بڑی مساجد میں ایک اور کا اضافہ

مقبول ملک23 ستمبر 2015

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے بدھ تئیس ستمبر کے روز ماسکو میں ایک ایسی نئی مسجد کا باقاعدہ افتتاح کر دیا، جو یورپ کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔ تقریب میں ترک صدر ایردوآن اور فلسطینی صدر محمود عباس بھی شریک ہوئے۔

https://p.dw.com/p/1Gbps
مسجد کی افتتاحی تقریب سے صدر پوٹن کا خطاب براہ راست تیلی وژن پر نشر کیا گیاتصویر: Reuters/M. Zmeyev

ماسکو سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق روسی دارالحکومت میں اس نئی مسلم عبادت گاہ کے افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پوٹن نے کہا کہ کئی ملکوں کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ ان کے جہادی نظریات کے حامل مسلم یا نو مسلم شہری دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے شام اور عراق میں لڑ رہے ہیں۔

ولادیمیر پوٹن نے مختلف ملکوں، خاص کر مغربی معاشروں میں مسلم آبادی کے ایک چھوٹے سے حصے میں شدت پسند مسلمانوں کی جہادی تنظیموں کی طرف پائی جانے والی کشش کے خلاف خبردار بھی کیا۔

روسی دارالحکومت میں آج جس نئی مسجد کا افتتاح کیا گیا ہے، وہ 20 ہزار مربع میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس میں بیک وقت 10 ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ مسجد روس کی سب سے بڑی مسجد ہے اور یہ ان روسی مسلمانوں کی مذہبی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی، جن کی تعداد کا اندازہ 20 ملین یا دو کروڑ لگایا جاتا ہے۔

ماسکو کی اس نئی اور انتہائی خوبصورت مسجد کی تعمیر قریب ایک عشرے میں مکمل ہوئی اور اس کی تعمیر پر کل 150 ملین یورو یا 170 ملین ڈالر کے برابر لاگت آئی۔ یہ منصوبہ گزشتہ برسوں کے دوران اس لیے کچھ متنازعہ بھی ہو گیا تھا کہ اسی جگہ پر پہلے ایک اور مسجد قائم تھی، جسے گرا کر مسلمانوں کی یہ نئی اور وسیع تر عبادت گاہ تعمیر کی گئی ہے۔

اس مسجد کی افتتاحی تقریب سے روسی صدر پوٹن کا خطاب ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اس موقع پر روسی صدر نے کہا، ’’یہ مسجد ماسکو اور پورے روس میں مسلمانوں کا ایک انتہائی اہم روحانی مرکز ہو گی، جو تعلیم کی ترویج کے علاوہ انسان دوستی کے نظریات اور اسلام کی حقیقی اقدار کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی ثابت ہو گی۔‘‘

Russland Eröffnung der größten Moschee in Europa in Moskau
تقریب میں شریک، دائیں سے بائیں، روسی مفتیوں کی کونسل کے سربراہ راویل غین الدین، صدر پوٹن، ترک صدر ایردوآن اور فلسطینی صدر محمود عباستصویر: Reuters/M. Shemetov

روس کو، جسے اپنے جنوبی قفقاذ کے علاقے میں برسوں سے مسلمانوں کی مسلح بغاوت اور علیحدگی پسندی کا سامنا رہا ہے، اس بات پر بھی بہت تشویش ہے کہ اس کے قریب 1800 مسلمان شہری اس وقت شام اور عراق میں دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ یا داعش کی طرف سے جہادی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

اس تقریب میں مہمانان خصوصی کے طور پر شرکت کرنے والے ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور فلسطینی صدر محمود عباس کی موجودگی میں اپنے نشریاتی خطاب میں صدر پوٹن نے مسلم جہادی عناصر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی قوتیں عام لوگوں کے مذہبی جذبات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

ولادیمیر پوٹن نے مزید کہا، ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ مشرق وسطٰی میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے دہشت گرد کس طرح اسلام جیسے عظیم مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اس مذہب کو بدنام کر رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی نفرتیں بھی بوتے جا رہے ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں