یورینیم کی بھارتی کان کے عوامی صحت پر منفی اثرات
8 دسمبر 2011گڑیا داس اپنے گھر میں ایک چارپائی پر لیٹی ہے اور اس کا گھر اس گاؤں میں ہے جو بھارت کی ابھی تک کام کرنے والی یورینیم کی واحد کان کے ارد گرد واقع دیہات میں سے ایک ہے۔
بارہ سالہ گڑیا داس اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ وہ اپنی اصل عمر سے آدھی عمر کی لگتی ہے۔ وہ تب سے ایک شدید بیماری کا شکار ہے جب اس کی عمر صرف ایک سال تھی۔ گڑیا کوcerebral palsy کا مرض لاحق ہے۔ یہ بیماری دماغ کے ایک حصے کی ناکافی نشو ونما کے نتیجے میں جسمانی معذوری کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
گڑیا کے والد چھتوا داس نے اپنے گھر پر فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ کئی سال پہلے ان کے علاقے میں اس مرض کے شکار بچوں کی تعداد 33 تھی۔ لیکن اب مشرقی ریاست جھاڑ کھنڈ کی جادو گڈا وادی میں اس بیماری کے شکار بچوں کی تعداد سو سے زیادہ ہو چکی ہے اور وہ سب کے سب معذور ہیں۔
چھتوا داس اور اس کی بیوی لکشمی کی صرف ایک بیٹی ہی اس بیماری کا شکار نہیں ہے۔ اس جوڑے کو مجموعی طور پر اپنے چھ بچوں کی اموات دیکھنا پڑیں، جو سب کے سب ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے گئے۔
کئی مقامی باشندوں اور چند سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ہلاکتوں اور مقامی بچوں میں Cerebral Palsy نامی مرض کی بہت زیادہ موجودگی کی ممکنہ طور پر صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے۔ اس علاقے کے قریب ہی یورینیم کی کان موجود ہے جس کا انتظام سرکاری ملکیت میں کام کرنے والی یورینیم کارپوریشن آف انڈیا لیمیٹڈ یا UCIL کے پاس ہے۔
گڑیا کی والدہ لکشمی نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اسے یقین ہے کہ اس کے کم سن بچوں کی ہلاکتوں اور گڑیا کی معذوری کا یورینیم کی ان کانوں سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ لکشمی کے بقول یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ اس علاقے کے پانی میں یورینیم اور اس کے اثرات پائے جاتے ہیں۔
تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یورینیم کی ان کانوں میں پیدا ہونے والے تابکار فاضل مادے وہاں tailing ponds کہلانے والے تین جوہڑوں میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ وہاں سے تابکاری اثرات زیر زمین پانی میں شامل ہو جاتے ہین، جن سے مقامی باشندوں کے استعمال میں آنے والا زیر زمین پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔ ان کانوں کا انتظام چلانے والے قومی ادارے UCIL نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
بھارتی یورینیم کارپوریشن کی جادو گڈا میں یورینیم کی پہلی کان نے 1967 میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ اس کے بعد سے وہاں کام کرنے والی ایسی کانوں کی تعداد اب سات ہو چکی ہے۔ ان کانوں کی وجہ سے مقامی دیہی آبادی کو روزگار ملا تھا جو تب بہت غریب تھے۔
ان کانوں میں کام کرنے والے کارکنوں کو اوسطا 14 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ یہ وہاں کے لیے لوگوں کے لیے کافی بڑی رقم ہے۔ اس لیے کہ یہ علاقے بہت غریب ہے، جھاڑ کھنڈ کا شمار بھارت کی غریب ترین ریاستوں میں ہوتا ہے اور یورینیم کی کانوں میں کام کر کے مقامی باشندے اپنی خوشحالی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ بظاہر پر خطر لیکن اچھی تنخواہ والی یورینیم کی کانوں میں ملازمتیں اس لیے بھی اچھی سمجھی جاتی ہیں کہ جھاڑ کھنڈ میں 40 فیصد سے زائد ریاستی آبادی کو روزانہ دو امریکی ڈالر کے برابر سے بھی کم رقم میں گذارہ کرنا پڑتا ہے۔
لیکن اس خوشحالی کی مقامی آبادی اور ان کی نئی نسل کو بظاہر بہت زیادہ قیمت چکانا پڑ رہی ہے اور یہ بات سماجی سطح پر قابل افسوس ہے۔ کئی سماجی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ حکومت کو اس صورت حال میں بہتری کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہیئں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک