1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں جرمن ادب

رپورٹ: شامل شمس، ادارت: مقبول ملک7 جون 2009

یونان کے شہر سالونیکی میں گزشتہ دنوں ایک شاندار بین الاقوامی کتاب میلے کا اہتمام کیا گیا۔ اس کتاب میلے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں جرمنی کو بطور مہمان ملک مدعو کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/I3eJ
سالونیکی منعقدہ یونانی کتب میلے کے شرکاءتصویر: DW

مہمان ملک سے مراد یہاں یہ ہے کہ جرمن ادب کو اس نمائش میں مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی؟ جرمن ادب کو جہاں دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہے وہاں یونان میں بھی جرمن فلسفے اور ادب کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

Podiumsdiskussion: "20 Jahre nach dem Mauerfall"
میلے میں مذاکروں کا بھی اہتمام کیا گیا۔ تصویر میں آپ جرمن ادیب مارٹن والسر اور انگو شولسے کو بھی دیکھ سکتے ہیںتصویر: Spiros Moskovou


سالونیکی کے کتاب میلے میں جرمنی کے اسٹال کو مرکزی حیثیت اور اہمیت حاصل تھی۔ یہاں نہ صرف جرمن کتابوں کی نمائش کی جا رہی تھی بلکہ جرمن ادب و ثقافت کی مناسبت سے مذاکرے بھی جا ری تھے اور جرمن ادب سے اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے جا رہے تھے۔ برلن سے تعلق رکھنے والے باس بوئٹشر بھی جرمن ادب سے اقتباسات پڑھ کر سنا رہے تھے۔ بوئٹشر پیشہ ورانہ طور پر ادبی فن پارے لوگوں کو پڑھ کر سناتے ہیں۔ اس فن کے بارے میں وہ کہتے ہیں:

’پہلا متن میں ہمیشہ عنوان بتائے بغیر پیش کرتا ہوں تاکہ لوگوں میں تجسس پیدا ہو، وہ زبان کو محسوس کرسکیں اور اسے سمجھ سکیں۔ یہ ایک طرح سے سامعین کو لبھانے کا طریقہ ہے‘

یونان میں جرمن ادیب خاصے مقبول ہیں اور نمائش میں جرمنی کے اسٹال پر مارٹن والسر، انگو شولسے، یُولیا فرانک اور ڈانیئل کیہل مان جیسے ادیبوں کی کتابیں جا بجا دکھائی دے رہی تھیں۔

معروف یونانی ادیب پیٹروس مارکارس سا لونیکی میں قائم یونان کے مرکزی قومی کتب خانے کے سربراہ بھی ہیں۔ وہ جرمنی میں خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ جرمن ادیبوں، اور خاص طور پر نوجوان جرمن ادیبوں کی یونان میں مقبولیت کے بابت وہ کہتے ہیں:

Internationale Buchmesse in Thessaloniki, Griechenland
دنیا بھر سے مصنفین اور ناشرین نے اس نمائش میں شرکت کیتصویر: DW


’گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران یونان میں جرمن ادب کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ بہت سے جرمن ادیبوں کی تخلیقات کو یونانی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ان میں نوجوان ادیب بھی شامل ہیں جیسے کہ ڈانیئل کیہل مان اور انگو شولسے، جنہیں آج سے پندرہ برس پہلے یونان میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ پہلے زیادہ سے زیادہ لوگ مارٹن والسر اور گنٹر گراس کو ہی جانتے تھے‘

اس کتاب میلے میں جرمنی سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ ناشرین اور کتابی میلوں کے منتظمین کی بھی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

فرینکفرٹ کے عالمی سطح پر مشہور کتاب میلے کے سربراہ ژرگن بوس بھی اس نمائش میں شریک تھے۔ وہ کہتے ہیں:

’یہ ایک بہت ہی اہم نمائش ہے۔ اس نمائش میں افراد خاصی تیاری کے ساتھ آئے ہیں لیکن ہماری تیاری ان سے مختلف ہے کیونکہ ہمارا تعلق جرمنی میں کتابوں کے ناشران کی تنظیم سے ہے۔ ساتھ ہی ہم ثقافت کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ ہم نجی طور پر جرمن وزارتِ خارجہ سے بھی منسلک ہیں‘