1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں مصیبت اٹھائی، پناہ جرمنی میں بھی نہ پائی

صائمہ حیدر
27 اپریل 2017

پاکستانی تارکِ وطن ’جازی‘ سن دو ہزار سولہ میں یونانی جزیرے لیسبوس پہنچنے کے بعد ہی سے پناہ گزین کا درجہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتا رہا ہے لیکن اب جرمنی میں دائر اُس کی پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2c0Fp
Serbien Flüchtlinge in Belgrad
جازی کو یونانی جزیرے لیسبوس میں موریا نامی مہاجر کیمپ میں رجسٹر کیا گیا تاہم رجسٹریشن کرنے والے رضاکاروں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ تارکین وطن کا کیا کیا جائےتصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/D. Balducci

جرمنی میں دریائے مائنز کے کنارے لی گئی جازی کی تصاویر اسے ایک خوش وخرم انسان دکھاتی ہیں۔ یہ تصویریں اُس نے فیس بک پر پاکستان میں اپنے گھر والوں سے شیئر کی ہیں۔

پاکستان کے شہر کراچی کے شہری اور  شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے تیس سالہ جازی کا پاکستان سے جرمنی تک کا سفر طویل اور مشکل تھا۔ جازی نے مہاجرین کے حوالے سے تازہ ترین خبریں اور اطلاعات شائع کرنے والی یورپی ویب سائٹ ’انفو میگرانٹس‘ کو بتایا،’’ مشکلات کا آغاز تین، چار سال پہلے ہوا جب مجھے دوسرے مسلک کے کچھ افراد نے اغوا کر لیا اور مجھ پر تشدد کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں اپنا مسلک تبدیل کر لوں۔‘‘

جازی کے مطابق اپنی جان بچانے کے لیے اُس نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور آٹھ  مارچ سن 2016 کو پاکستان سے نکل آیا۔ اُس کا سفر کراچی سے شروع ہوا، جو اسے ایران کے راستے ترکی لے گیا۔ انسانی اسمگلروں کی مدد سے مارچ کی سترہ تاریخ کو جازی یونانی جزیرے لیسبوس پہنچا۔

جازی نے انسانی اسمگلروں کے حوالے سے بتایا،’’ اُنہوں نے ہم سے بہت بدتر سلوک کیا۔‘‘ جازی نے اس سفر کے لیے 5000 یورو کی رقم ادا کی تھی۔ یورپ میں داخلے کے بعد ہی سے مایوسیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جازی کہ بقول ’یہ ایک انتظامی جہنم کا آغاز تھا‘۔ جازی یونان سےمغربی یورپ کی طرف سفر جاری رکھنا چاہتا تھا لیکن تب تک بلقان روٹ بند ہو چکا تھا۔

 جازی کو یونانی جزیرے لیسبوس میں موریا نامی مہاجر کیمپ میں رجسٹر کیا گیا تاہم رجسٹریشن کرنے والے رضاکاروں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ تارکین وطن کا کیا کیا جائے۔ کچھ دن بعد ایک غیر متوقع واقعہ رونما ہوا۔ جازی نے ’انفو میگرانٹس‘ کو بتایا کہ اُسے اور سینکڑوں دیگر پاکستانی مہاجرین کو بغیر کچھ بتائے حراست میں لے لیا گیا اور جزیرے کے شمال مشرقی حصے میں قائم ایک حراستی مرکز لے جایا گیا۔ جازی نے بتایا:’’ہمیں نہیں پتہ تھا کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ کوئی ہمارے سوالوں کے جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔‘‘

جازی نے بتایا کہ اُسے کسی الزام کے بغیر چھ ماہ قید میں رکھا گیا اور ستمبر میں رہا کر دیا گیا۔ تب اُس نے ایک بار پھر انسانی اسمگلروں کی مدد لینے کا فیصلہ کیا اور 3000 یورو مزید ادا کر کے جنوری سن 2017 میں جرمنی پہنچا، جہاں اُس کے کچھ رشتہ دار پہلے سے موجود تھے۔

جرمنی میں جازی نے پناہ کی درخواست دائر کی، جہاں اسے فرینکفرٹ کے قریب کیلک ہائیم میں واقع ایک مہاجر مرکز میں بھیج دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد جازی کو بتایا گیا کہ اس کی پناہ کی درخواست مسترد ہو گئی ہے کیونکہ وہ اپنے اس دعوے کے حق میں کہ اس کی زندگی کو پاکستان میں خطرہ ہے، مناسب اور کافی ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔

جازی کا کہنا تھا:’’وہ سمجھتے ہیں کہ میرا معاملہ ذاتی دشمنی کا ہے۔ پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کی حالتِ زار اُن کے لیے کافی ثبوت نہیں۔‘‘ جازی اب پناہ کے لیے مسترد کیے جانے کے فیصلے کے خلاف اپیل کر رہا ہے لیکن اگر اپیل بھی نامنظور ہو گئی تو جازی کا مستقبل کیا ہو گا؟ جو بھی ہو لیکن جازی کے بقول،’’ یورپ چھوڑنے اور پاکستان واپس جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔