1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

108 غیر ملکی این جی اوز، غیر اندراج شدہ

شکور رحیم، اسلام آباد3 اگست 2015

پاکستان کے مرکزی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں کام کرنے والی 127 غیرملکی این جی اوز میں سے 108 این جی اوز غیر اندراج شدہ ہیں۔ ان میں امریکا سمیت مغربی ممالک کی این جی اوز بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/1G93k
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی سپریم کورٹ کے حکم پر عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں اسٹیٹ بینک نے اِن این جی اوز کو ملنے والے فنڈز کے ذرائع بھی بتائے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سالہاسال سے پاکستان میں کام کرنے والی ان تمام غیر اندراج شدہ این جی اوز کا، کمپنیوں کا اندراج کرنے والے ادارے سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے پاس کو ئی ریکارڈ موجود نہیں۔

اسٹیٹ بینک کی اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کام کر نے والی ان 127 این جی اوز میں سے صرف 19 باقاعدہ طور پر پاکستانی حکومت کے ساتھ مفاہمت کی یادشتوں (ایم او یوز) پر دستخطوں کے بعد قانونی طریقے سے کام کر رہی ہیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ امریکا کی 28 این جی اوز میں سے 26 غیر اندراج شدہ ہیں۔ غیر اندراج شدہ امریکی این جی اوز میں یو ایس ایڈ، سیو دی چلڈرن، مَرسی کَور، چرچ ورلڈ سروس اور نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ (این ڈی آئی) بھی ایس ای سی پی کےساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔

اسی طرح 20 برطانوی این جی اوز میں سے 17 غیر اندراج شدہ ہیں۔ ان میں اوکسفیم، مرلن، بی بی سی میڈیا، سیو دی چلڈرن اور ایکشن ایڈ کے نام نمایاں ہیں۔ پاکستان میں کام کرنےو الی جرمنی کی 14 این جی اوز میں سے 12 کا اندراج نہیں ہے۔ ان میں ہینرش بول فاؤنڈیشن، فریڈرش ایبرٹ اشٹفٹُنگ، ہانس زیڈل فاؤنڈیشن، فریڈرش نومن اشٹفٹُنگ اور ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشنل (ڈی آر آئی) بھی شامل ہیں۔

سوئزرلینڈ کی نو میں سے صر ف تین فرانس کی چھ میں سے صرف ایک این جی او قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد کام کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی تین، اٹلی کی پانچ، جاپان کی پانچ، کینڈا کی چار اور آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کی ایک، ایک این جی او غیرقانونی طور پر کام کر رہی ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستانی سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے غیر ملکی این جی اوز کی تعداد،کام، فنڈنگ اور اس کے استعمال سے متعلق رپورٹ طلب کی تھی۔ اسٹیٹ بنک کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں ان این جی اوز کی فنڈنگ کے ذرائع تو لکھے گئے ہیں جن میں مختلف حکومتوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی امدادی ادارے بھی شامل ہیں۔ تاہم اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ غیر ملکی این جی اوز یہ فنڈز استعمال کہاں کرتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر عدالت حکم دے تو مرکزی بینک ان این جی اوز کو ملنے والے فنڈز کا آڈٹ کر سکتا ہے۔

ایک ماہ قبل بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’’سیو دی چلڈرن‘‘ پر پاکستان میں پابندی عائد کرتے ہوئے اسلام آباد میں اس کا دفتر سِیل کردیا گیا تھا
ایک ماہ قبل بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’’سیو دی چلڈرن‘‘ پر پاکستان میں پابندی عائد کرتے ہوئے اسلام آباد میں اس کا دفتر سِیل کردیا گیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

خیال رہے کہ غیر ملکی این جی اوز کے خلاف موجودہ حکومتی کارووائی کی کڑیاں دو مئی2011ء کو القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں امریکی فوجی آپریشن کے نتیجے میں ہلاکت سے بھی جڑتی ہیں۔ مبینہ طور ’’سیو دی چلڈرن‘‘ نامی تنظیم سے منسلک ایک پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پولیو ویکسین پلانے والے رضاکار کے روپ میں اسامہ بن لادن سے متعلق معلومات امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کو پہنچائی تھیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث غیر ملکی این جی اوز اور ان کے مقامی شراکت داروں کے خلاف کارووائی کرے گی۔

خیال رہے کہ ایک ماہ قبل بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’’سیو دی چلڈرن‘‘ پر پاکستان میں پابندی عائد کرتے ہوئے اسلام آباد میں مارگلہ روڈ پر واقع اس کا دفتر سِیل کردیا گیا تھا۔ تاہم بظاہر بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے حکومت نے اس این جی او کو چند دن گزرنے کے بعد ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے کام کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

اُس وقت وفاقی حکومت نے غیر ملکی این جی اوز کو متعلقہ حکام کی اجازت کے مطابق کام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے تین ماہ کے اندر از سرنو رجسٹریشن کروانے کا کہا تھا۔

وزارت داخلہ کے مطابق تمام غیر ملکی این جی اوز کو چھ ماہ تک پاکستان میں کام کرنے کی اجازت ہوگی تاہم ان این جی اوز کی تین ماہ کے اندر از سرنو رجسٹریشن کی جائے گی۔